آپ نے غور کیا یہ کون سا دن تھا اور کون سی مسجد؟ جمعہ کا دن تھا اور جامع مسجد جس کا یہ روح افزا اور حیات بخش منظر آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا: {یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَO}1
یہ قدرتی ہفتہ وار اجتماع نظامِ مساجد کے سلسلے میں ہر ماہ چار مرتبہ ہوتا ہے اور کبھی کبھی مہینہ میں پانچ مرتبہ بھی، اس اجتماع سے قوم وملک کو ہمیشہ فائدے پہنچتے رہے جس کی تفصیل اپنے موقع پر آئے گی۔
سالانہ تنظیم:
اس نظم وضبط کے ساتھ سال کے بارہ مہینے گزرتے ہیں، مگر ان میں دو مخصوص دن ذرا اور امتیازی شان رکھتے ہیں، اور ان دنوں کا قدرتی اجتماع اور زیادہ مفید اور مہتم بالشان ہوتا ہے۔
آج فرزندانِ توحید کے قلوب وفورِ مسرت سے لبریز معلوم ہوتے ہیں، ہر چیز میں نمایاں امتیاز پایا جاتا ہے، لباس بھی عمدہ سے عمدہ اور صاف ستھرے ہیں، کھانے پینے میں بھی خاص اہتمام ہے۔ جوان، بچے، اور بوڑھے سب تکبیر کہتے ہوئے ایک ہی جانب جارہے ہیں اور شاید ایک ہی گھر کو جارہے ہیں۔ تھوڑی دیر میں ایک وسیع میدان کے اندر عظیم الشان اجتماع ہوگیا، جس میں شائستہ شہری بھی ہیں اور سادہ دل دیہاتی بھی، کھلے دل میں ایک عجیب دلکش منظر ہے، ایک آواز پر لاکھوں اونچی پیشانیاں خدائے واحد کی پرستاری میں خاک آلود ہو رہی ہیں، کبر ونخوت کا جنازہ نکل رہا ہے، مساوات کا پرچار ہو رہا ہے، اور یہ سب ایک نظام کے ساتھ ہو رہا ہے۔
صدقۂ فطر کے نظام نے غریبوں اور محتاجوں کو بھی خوشی کا موقعہ دے رکھا ہے، ایک آواز اٹھی، اور وہ محلہ محلہ پہنچ گئی، شہر کے گوشہ گوشہ سے نکل کر اس کی گونج دیہاتوں میں سنی جارہی ہے، یہ سالانہ قدرتی اجتماع ہفتہ وار اجتماع سے کہیں زیادہ جاذبِ نظر اور نتیجہ خیز ہوتا ہے۔ آپ نے سمجھا یہ اجتماع کیسا ہے؟ یہ بھی ایک مسجد ہی کا ابرِکرم ہے جو ہر خطۂ ارض پر برستا ہے، جس کو ہم عیدگاہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔