آپ نے ایسی چیزوں سے بھی اجتناب فرمایا ہے جس سے کسی درجے میں خلل کا اندیشہ ہوسکتا ہے، چناں چہ ایک بار حضرت عائشہ ؓ نے دروازہ پر ایک خوبصورت باریک پردہ لٹکا رکھا تھا، آپ نے نماز شروع کرنا چاہی تو فرمایا: ’’میرے سامنے سے اپنا یہ منقش پردہ ہٹالو‘‘۔1 اسی طرح ایک دفعہ بوٹی دار چادر میں آپ نے نماز ادا کی، مگر نماز کے بعد اُسے فوراً بھجوا دیا اور اس کی جگہ سادہ منگوالی، اور وجہ یہ بیان فرمائی کہ ’’اس چادر نے میری توجہ ہٹادی‘‘۔2 یہ تو آپ کا اپنا حال تھا، امت کو بھی اس ہدایت سے نوازا، اور ساتھ ہی ہر ایسی چیز سے اور ہر ایسے فعل سے منع فرمایا، جس کو خشوع کے خلاف محسوس فرمایا۔ مثلاً: یہ کہ بھوک میں کھانا سامنے آجائے اور طبیعت کا رجحان کھانے کی طرف ہو، تو پہلے کھانا کھالیا جائے، پھر نماز پڑھی جائے، آسمان کی طرف دیکھا نہ جائے، اِدھر اُدھر تا کا نہ جائے، جمائی نہ لی جائے۔ آں حضرت ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’پاخانہ، پیشاب کی خلش کے وقت فراغت سے پہلے نماز نہ پڑھی جائے‘‘۔ 3
استقبالِ قبلہ اور اس کا اثر:
نماز میں استقبالِ قبلہ کا حکم ایک طرف نظامِ وحدت کی ایک کڑی ہے، تو دوسری طرف اس میں خشوع وخضوع کا شرعی اہتمام ہے، تاکہ دل جمی پیدا ہوسکے اور ساری جماعت میں یک جہتی ہو۔ مختصر لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ نماز میں دخول ظاہری طور پر افعال بالجوارح اور خلافِ ادب کلام باللسان کو حرام کردیتا ہے، اور نماز کی نیت جو باطن ہے، وہ باطن پر اثر انداز ہوتی ہے اور دوسرے افکار کو حرام قرار دیتی ہے جو غیر اللہ سے متعلق ہوں۔ یہ وہ امور ہیں جن کا اہتمام علمائے سلف ؒ اور صحابۂ کرام ؓ نے اپنے اپنے دور میں خوب ہی فرمایا اور پچھلوں کے لیے نشانِ راہ چھوڑ گئے۔
پہلوں کا خشوع:
’’ابوداود شریف‘‘ باب الوضوء بالدم میں ایک صحابی کا ذکر آیا ہے کہ حالتِ نماز میں ان کو دشمن کے تیر آ آکر لگتے رہے، خون بھی نکلا، مگر انھوں نے نیت نہ توڑی اور برابر نماز میں اسی طرح مصروف رہے گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ عمر فاروق ؓ کا واقعہ مشہور ہے کہ امامت کرتے ہوئے آپ کو زخم لگایا گیا، آپ کی جگہ دوسرے نے امامت کی، مگر نماز میں کوئی فرق نہ آیا۔