یہ ساری تفصیل آپ کے سامنے ہے، اس کاوش کا مقصد یہ ہے کہ تخفیفِ صلاۃ کا جو مطلب آج کل بعض لوگ سمجھتے ہیں وہ کس قدر غلط ہے، ان مذکورہ بالا حدیثوں سے ظاہر ہے کہ آں حضرت ﷺ کی نگاہ میں ہلکی نماز کا کیا مطلب ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا بیان ہے کہ آپ ہم کو ہلکی نماز کا حکم فرماتے تھے۔ اور جب انھوں نے عملی مثال بیان کی تو یہ کہ آپ سورۂ صافات کے ساتھ امامت فرماتے تھے۔ 3
قرأت میں ترتیل:
یہ تو ہر نماز میں آیتوں کی تعداد کے اندازہ لگانے کے لیے نقل کیا گیا ہے، علاوہ ازیں پڑھنے کا طریقہ بھی جاننا ضروری ہے کہ رحمتِ عالم ﷺ نے قرآنِ پاک پڑھنے کا کیا طریقہ اختیار فرما رکھا تھا؟ اس سلسلے میں سب سے پہلے قرآن کا یہ فرمان رکھنا چاہیے: {وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاO}۔4
جس کا منشا یہ ہے کہ آپ کو ترتیل اور ٹھہر ٹھہر کر صاف صاف پڑھنے کا حکم تھا، جس کی آپ پوری پوری پیروی فرماتے تھے۔ تیز پڑھنے کا کبھی بھی آپ کا معمول معلوم نہیں ہوتا ہے جس سے قرآنِ پاک کے کلمات پورے طور پر ادا نہ ہوسکیں، یا سننے والا اچھی طرح کلمات سمجھ نہ سکے۔ حضرت امِ سلمہ ؓ سے روایت ہے:
کان رسول اللّٰہ ﷺ إذا قرأ یقطع قرائتہ آیۃ آیۃ {بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِO اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَO الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِO}۔11
رسول اللہ ﷺ جب تلاوت فرماتے تھے تو ایک ایک آیت علیحدہ علیحدہ کر کے پڑھتے تھے۔
{بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِO پھر اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَO پھر الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِO}۔ (ایک آیت کو دسری میں نہیں ملاتے۔)
حضرت حذیفہ ؓ کا بیان ہے کہ آں حضرت ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، تو دیکھا آپ کی قرأت اعتدال کے ساتھ تھی، نہ پست تھی، نہ بلند، رُک رُک کر پڑھتے اور ترتیل کا پورا لحاظ فرماتے تھے۔1
ام المومنین حضرت حفصہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی قرأت کے متعلق فرماتی ہیں کہ کوئی سورت جب آپ پڑھتے، تو ترتیل کے ساتھ پڑھتے، جس سے سورت لمبی سے لمبی معلوم ہوتی۔ حضرت امِ سلمہ ؓ سے ایک روایت میں ہے کہ ایک ایک حرف الگ الگ کر کے پڑھتے۔ 2