بغض وحسد کی روک تھام:
اور پھر اس نظمِ جماعت سے خود بخود الفت ومحبت کے رشتے استوار ہوتے ہیں، نفاق وخصومت، حسد وبغض، عداوت ونفرت اور اس طرح کی ساری نقصان دہ اور ضرر رساں باتوں کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جاتا ہے، قرآنِ پاک نے بھی نماز کے اس وصف کی طرف اشارہ فرمایا ہے: {وَاتَّقُوْہُ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَO مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَہُمْ وَکَانُوْا شِیَعًاط}1
محبت والفت:
رات دن کی باہم ملاقاتیں خاص کیفیت کے ساتھ ہوں گی، تو جہاں محبت والفت اور مساوات کا جذبہ راسخ ہوگا، وہاں درمندی وغم خواری بھی اپنی جگہ پیدا کرلے گی، ایک دوسرے کو برے اور پھٹے حال میں جب دیکھے گا تو طبعی طور پر ہمدردی، حسنِ سلوک اور نیک برتاؤ کا جذبہ اُبھرے گا، اور اجتماعی جذبہ ان کو سب کچھ کرنے پر مجبور کرے گا، اور اس طرح کے بیسیوں فائدے خود بخود مترتب ہوں گے۔ مسجد کے اس نظمِ جماعت کے مصالح وحِکم اگر استقصا سے قلم بند کیے جائیں، تو ایک ضخیم کتاب صرف اسی عنوان پر ترتیب دی جاسکتی ہے۔
رحمتِ عالم ﷺ کی مسرت:
بہرحال انھی حکمتوں اور مصلحتوں کا نتیجہ تھا کہ آں حضرت ﷺ کو یہ نظمِ جماعت بہت محبوب تھا، اور اپنی اخیر ساعتِ عمر تک اس سے آپ نے والہانہ محبت فرمائی۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ دوشنبہ کو صدیقِ اکبر ؓ امامت کے فرائض انجام دے رہے تھے اور لوگ صف بستہ پیچھے کھڑے تھے، اور رحمتِ عالم ﷺ اپنی آخری بیماری میں کمزوری کی وجہ سے گھر میں آرام فرما تھے، آپ اپنے بسترہ سے اُٹھ کر دروازے پر تشریف لائے اور پردہ اُٹھا کر جماعت کو دیکھنے لگے جو مسجد میں مشغولِ نماز تھی، آپ یہ دیکھ کر خوشی سے مسکرا اُٹھے۔2
جانتے ہیں آپ کی یہ مسرت کیوں تھی؟ محض اس وجہ سے کہ آپ نے صحابہ کرام کو دیکھا، نماز با جماعت ادا کر رہے ہیں، ہر ایک امام کی پوری پوری پیروی کرتا ہے اور اس طرح یہ اپنی شریعت پر قائم، آپس میں متحد اور ان کے دل ملے ہوئے ہیں۔
جامع مسجدوں کا نظام: