دروازہ بند کرنا:
مسجد کے سامان اور اسباب کے ضائع ہونے کا خطرہ ہو تو مسجد کا دروازہ بند کرنا جائز ہے، فقہا اور محدثین دونوں اس کے قائل ہیں، مگر نماز کے وقتوں میں دروازہ کھلا رکھا جائے گا، تاکہ جماعت کے لیے لوگ بآسانی آسکیں۔ جماعت کے علاوہ وقتوں میں بھی دروازہ اس طرح بند کیا جائے کہ خادم ہمیشہ وہاں موجود رہے، تاکہ کوئی بعد میں نماز کے لیے آئے تو وہ کھول دے اور اس طرح نمازی کو کسی طرح کی تکلیف نہ ہو۔ جہاں اور شعبے پر صرف کیا جاتا ہے دروازہ کے کھولنے پر ایک خادم رکھنا چاہیے۔
چوری کے خوف سے دروازہ بند کرنا برا نہیں ہے اور نہ یہ آیت: {وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ} الآیۃ2 کے تحت داخل ہے، کیوں کہ وہاں نماز سے روکنا ہے اور یہ نماز سے روکنے کے لیے نہیں ہے۔
شانِ نزول میں اہلِ روم جو بیت المقدس کے مخرب ہیں ان کا نام لیا گیا ہے یا مشرکینِ مکہ کا جنھوں نے آپ ﷺ کو صلحِ حدیبیہ کے سال بیت اللہ کی زیارت سے روکا تھا، اگرچہ بابِ احکام میں عام ہے، جس سے معلوم ہوا کہ اگر مسجد کو بالکلیہ نماز وذکر اللہ سے نہ روکے تو وہ اس آیت کے تحت میں داخل نہ ہوگا۔ آیت کی ترکیب بھی اسی کو چاہتی ہے، کیوں کہ {مَنَعَ} فعل متعدی ہے جس کے دو مفعول ہیں: {مَسَٰجِدَ اللّٰہِ} اور {أَن یُذْکَرَ}، جس کے معنی یہ ہوں گے کہ ذکر اللہ مسجد میں روک دیا جائے۔ اور یہ اس وقت ہوگا جب دروازہ بند کردیا جائے اور لوگوں کو ذکر اللہ کے لیے دخول کی اجازت نہ دی جائے، اور یہ مسلم حقیقت ہے کہ کوئی مسلمان مسجد کا دروازہ اس نیت سے بند نہیں کرتا۔ اپنا ذاتی خیال ہے کہ اگر ایک مسلک کے لوگ دوسرے مسلک والے کو فتنہ وفساد کی وجہ سے مسجد میں نہ آنے دیں اور خود ایک مسلک کے لوگ جماعت سے نماز پڑھیں، تو یہ فعل بھی اس آیت کے تحت میں نہ آئے گا، اس لیے کہ ابھی آپ اوپر پڑھ چکے ہیں کہ مسجد کو جھگڑے اور فتنہ وفساد سے بچانا چاہیے۔
دینی تعلیم: