ہوگئی تھی، دوبارہ زندگی بخشنا چاہتے تھے۔ اے کاش! مسلمانوں کی سوئی ہوئی بستی جاگے اور اس قدرتی نظام کو سمجھنے کی کوشش کرے، اور ساتھ ہی ساتھ اس کو بروئے کار لانے کی عملی جدوجہد شروع کردے۔
امام اور اس کے فرائض:
ان تمام مباحث کا خلاصہ یہ ہے کہ امام ایسے فرد کو بنایا جائے جو عالم باعمل اور خدا ترس ہو، اور اس کو اپنی ذمہ داری کا پورا احساس ہو، کیوں کہ اس کے فرائض بڑے اہم اور نہایت نازک ہیں، ذراسی غلطی سے پونجی کے لٹ جانے کا خطرہ ہے۔ یقینی طور پر وہ اس دینی عبادت میں تمام اہلِ مسجد کا امیر ہوتا ہے اور سب کی طرف سے نمائندہ بن کر وہی رب العزت سے مناجات کرتا ہے۔ اس نے اگر اپنی ذمہ داری کے احساس کے ساتھ فرائض کی ادائیگی میں سعی پیہم کی اور اخلاص وللہیت کے ساتھ اسے بجا لایا، تو وہ عنداللہ اجرِ جزیل کا مستحق ہوگا اور انجامِ کار کامیاب وبامراد، اور اگر خدانخواستہ اس نے کوتاہی کو راہ دی، اخلاص کی روح کو زخمی کیا اور حق پیشوائی کی بجا آوری میں جدوجہد سے کام نہ لیا، تو پھر اس کے لیے خسران وناکامی کی ذلت ہے۔
صفوں کی نگرانی:
مصلّے پر پہنچتے ہی اس کو دیکھنا ہوگا: صفیں درست اور مرتب ہیں یا نہیں، وہ شریعت کے قوانین پر پوری اترتی ہیں یا نہیں، یوں تو مقتدی کا فریضہ ہے ہی کہ وہ شرعی ہیئت کے ساتھ کھڑا ہو، مگر امام اس کی مزید نگرانی کرے گا۔ آں حضرت ﷺ بذاتِ خود صفوں کو درست اور برابر فرماتے اور ادھر سے مطمئن ہو کر تکبیرِ تحریمہ کہتے۔ چناں چہ نعمان بن بشیر ؓ کا بیان ہے:
کان رسول اللّٰہ ﷺ یسوي صفوفنا إذا قمنا إلی الصلاۃ، فإذا استوینا کبر (أبو داود)