احادیث میں شدید تاکید:
اس باب میں احادیث بکثرت آئی ہیں، جن سے جماعت کا لزوم، اس کی فضیلت اور تاکید نمایاں طور پر معلوم ہوتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے:
أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہَ ﷺ قَالَ: وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہ، لَقَدْ ہَمَمَتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَیُحْطَبُ، ثُمَّ آمَرُ بِالصَّلَاۃِ، فَیُؤَذَّنُ لَہَا، ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَیَؤُمُّ النَّاسَ، ثُمَّ أُخَالِفُ إِلَی الرِّجَالِ فَأُحَرِّقَ عَلَیْہِمْ بُیُوْتَہُمْ۔ وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ، لَوْیَعْلَمُ أَحَدُہُمْ أَنَّہٗ یَجِدُ عَرْقًا سَمِیْنًا أَوْ مَرْمَاتَیْنِ حَسَنَتَیْنِ، لَشَہِدَ العِشَائَ۔ (بخاري: باب وجوب صلاۃ الجماعۃ)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، جی چاہتا ہے کہ لکڑیوں کے ڈھیر کرنے کا حکم دوں، پھر نماز کے لیے اذ۱ن پکار دی جائے، اس کے بعد کسی
کو لوگوں کا امام بنادوں، پھر لوگوں کو چل کر دیکھوں اور جو اس وقت گھروں میں مل جائیں، ان کو جلا ڈالوں۔ خدا کی قسم! ان کا حال یہ ہے کہ اگر کسی کو معلوم ہو جاے کہ موٹی ہڈی، یا دو کھر ہی مل جائیں گے، تو پھر وہ ضرور عشا میں حاضر ہوں گے‘‘۔
اس حدیث میں ’’رجال‘‘ سے وہ لوگ مراد نہیں ہیں جو بے نمازی ہیں، بلکہ وہ لوگ مراد ہیں جو مسجد چھوڑ کر بغیر عذرِ شرعی اپنے گھروں میں نماز پڑھتے ہیں، جیسا کہ ’’ابوداؤد‘‘ کی مندرجہ ذیل حدیث میں وضاحت ہے:
لَقَدْ ہَمَمْتُ أَنْ آمُرَ فِتْیَتِيْ، فَیَجْمَعُوْا إِلَيَّ حُزَمًا مِنَ الْحَطَبِ، ثُمَّ آتِيْ قَوْمًا یُصَلُّوْنَ فِيْ بُیُوْتِہِمْ، لَیْسَتْ بِہِمْ عِلَّۃٌ، فَأُحَرِّقُہَا عَلَیْہِمْ۔ (باب التشدید في ترک الجماعۃ)
’’بلاشبہ جی چاہتا ہے کہ جوانوں کو حکم دوں کہ وہ میرے پاس لکڑیاں ڈھیر لگا دیں، پھر میں ان میں جاؤں جو اپنے گھروں میں بلاعذر نماز پڑھتے ہیں اور اُن کو گھر سمیت پھونک ڈالوں‘‘۔
ان حدیثوں کے ضمن میں امام احمد بن حنبل ؒ لکھتے ہیں:
فلولا أن تخلفہم عن الصلاۃ في المسجد معصیۃ کبیرۃ عظیمۃ لما ہَدَرَہم النبي ﷺ ، وبحرقِ منازلہم۔ (کتاب الصلاۃ، إمام أحمد ؒ ص: ۲۱)
اگر مسجد میں جماعت کی نماز سے غیر حاضری گناہِ کبیرہ نہ ہوتی تو آں حضرت ﷺ ان کے گھروں کو جلانے کی تہدید (دھمکی) نہ فرماتے۔
پہلی حدیث میں لشہد العشاء کا جملہ بتا رہا ہے کہ یہ تاکید اور ساتھ ہی تہدید وقتی نمازوں کے لیے بھی ہے، صرف یہ جمعہ کی