حضرت سالم ؒ کی زبان پر یہ آیت تھی: {رِجَالٌلا لَّا تُلْہِیْہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ} إلخ (النور: ۳۷) اور فرما رہے تھے: یہی لوگ اس آیت کے مصداق ہیں۔3
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے متعلق بیان ہے کہ آپ بازار میں تھے، اتنے میں نماز کے لیے اقامت کہی گئی، بس دیکھا: سبھوں نے دوکانیں بند کردیں اور مسجد میں داخل ہوگئے، یہ منظر دیکھ کر آپ نے فرمایا کہ انھی لوگوں کے باب میں یہ آیت نازل ہوئی ہے: {رِجَالٌلا لَّا تُلْہِیْہِمْ تِجَارَۃٌ} الآیۃ۔4
سلفِ صالحین کا جماعت سے عشق:
ایک دفعہ میمون بن مہران مسجد پہنچے تو ان کو معلوم ہوا کہ جماعت ہوچکی، یہ سن کر آپ نے إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون پڑھا، پھر فرمایا: جماعت کی نماز مجھ کو عراق کی گورنری سے زیادہ محبوب ہے۔5
سلفِ صالحین جماعت کے جس قدر دلدادہ تھے اس کی مثال اس دور میں ملنی مشکل ہے، اگر کبھی ان کی تکبیرِ اولیٰ بھی فوت ہو جاتی تھی تو تین تین دن تک اس کا سوگ کرتے، اور اگر اتفاق سے جماعت چھوٹ جاتی تب تو سات دن تک غم والم میں مبتلا رہتے۔1
موجودہ دور میں علما کا اہتمامِ جماعت:
یہ چند واقعات آپ کے سامنے ہیں، ان کے پیشِ نظر بار بار غور کریں اور جماعت کی نماز کی اہمیت کا اندازہ لگائیں، جی چاہتا تھا کہ ہر دور کی چند مثالیں پیش کردی جائیں، مگر تطویل کے خوف سے نظر انداز کرنا پڑ رہا ہے، صرف موجودہ دور کے چند باخدا بزرگوں کے صحیح واقعات عبرت وبصیرت کے لیے لکھے جاتے ہیں:
حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب ؒ جب حج کے سلسلے میں مکہ معظمہ اور پھر کسی وجہ سے طائف تشریف لے گئے، تو وہ جنگِ عظیم کا زمانہ تھا، کافی شورش پھیلی ہوئی تھی، ہر آن گولیاں چلتی رہتی تھیں، ورنہ خطرہ تو بہرحال تھا، اس وقت بھی حضرت پنج وقتہ نماز باجماعت ادا کرتے تھے اور جس طرح بن پڑتا مسجد پہنچنے کی کوشش کرتے۔ یہاں سے جب برطانیہ کے اشارہ پر شریفِ مکہ نے گرفتار کرلیا اور برطانیہ کی نگرانی میں مالٹا روانہ کیے گئے، تو تمام راستہ حتی الوسع سنگین پہروں میں باجماعت نماز ادا کرنے کی سعی جاری رکھی، گورے چمڑے والے فوجی چاروں طرف سے گھیرے میں لیے ہوئے