دعا ضرور قبول ہوتی ہے، اُس گھڑی میں مومن کی دعا رد نہیں کی جاتی۔ رحمتِ عالم ﷺ نے ایک دفعہ جمعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
فِیْہِ سَاعَۃٌ لَا یُوَافِقُہَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ، وَہُوْ یُصَلِّيْ یَسْأَلُ اللّٰہ شَیْئًا إِلَّا أَعْطَاہُ۔ أشار بیدہٖ یقللہا۔ (مسلم: کتاب الجمعۃ: ۱/۲۸۱)
’’جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی ہے جس میں مرد مسلمان نماز پڑھے اور اپنے اللہ سے کسی چیز کی درخواست کرے، تو اللہ تعالیٰ وہ چیز اسے عطا کرے گا، مگر وہ گھڑی مختصر ہوتی ہے‘‘۔
یہ ساعتِ استجابت باقی ہے یا اٹھالی گئی؟ ہر جمعہ میں یہ ساعت آتی ہے یا کسی خاص میں؟ اس باب میں مختلف اقوال ہیں، مگر جو صحیح مذہب ہے وہ یہ ہے کہ یہ ساعتِ استجابت (قبولیت کی گھڑی) باقی ہے اور ہر جمعہ میں آتی ہے۔ یہ مسئلہ اختلافی ہے کہ وہ کون سی گھڑی ہے؟ حافظ ابنِ حجر عسقلانی نے فتح الباري میں اس باب میں بیالیس اقوال نقل کیے ہیں، اور پھر ہر ایک قول کا ماخذ اور اس کی دلیل بھی لکھی ہے، مگر راجح یہی ہے کہ اس قبولیت کی گھڑی کو چھپا لیا گیا ہے، کوئی خاص گھڑی متعین نہیں ہے۔ اور اس سے مقصود یہ ہے کہ بندہ اس گھڑی کی تلاش وجستجو میں ہمیشہ ہر جمعہ کو پورے دن رغبت سے عبادت میں مصروف رہے۔
نمازِ جمعہ کی تاکید:
انہی خصوصیات کی وجہ سے نمازِ جمعہ کی سخت تاکید ہے اور باجماعت نماز کا حکم ہے، جمعہ کی انفرادی نماز سرے سے جائز ہی نہیں ہے، البتہ جو لوگ معذور ومجبور ہیں وہ بجائے جمعہ، ظہر کی نماز پڑھ سکتے ہیں، قرآن میں اس نام سے ایک مستقل سورت موجود ہے، اس میں یہ آیت بھی آئی ہے:
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَط}۔1
اے ایمان والو! جمعہ کے دن جب اس کی نماز کے لیے تم کو پکارا جائے تو اللہ تعالیٰ کی یاد کی طرف دوڑو اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔
حدیث میں مختلف پیرایہ سے اس کی اہمیت ذہن نشین کی گئی ہے، یہاں صرف چند حدیثیں پیش کی جاتی ہیں:
اَلْجُمْعَۃُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ فِي جمَاعَۃٍ إِلَّا أرْبَعَۃً: عَبْدٌ مَمْلُوْکٌ أَوِ امْرَأَۃٌ أَوْ صَبِيٌّ أَوْ مَرِیْضٌ۔ (أبو داود)
’’ہر مسلمان مرد پر جمعہ کی جماعت ایک ضروری حق ہے، البتہ چار پر نہیں: غلام، عورت، بچہ اور بیمار‘‘۔
ترکِ جمعہ وجماعت کی وعید بیان فرمائی گئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ اور عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں:
سمعنا رسول اللّٰہ ﷺ یقول علی أعواد منبرہ: لَیَنْتَہِیَنَّ أَقْوَامٌ عَنْ وَدْعِہِمُ الْجُمُعَاتِ، أَوْ لَیَخْتِمَنَّ اللّٰہُ عَلَی قُلُوْبِہِمْ، ثُمَّ لَیَکُوْنُنَّ مِنَ الغَافِلِیْنَ۔ (مسلم: کتاب الجمعۃ: ۱/۲۸۴)
ہم نے آں حضرت ﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا کہ ’’یا تو لوگ جمعوں کے ترک سے باز آئیں گے، یا پھر اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا