عہدِ صحابہ میں شعبۂ امامت کی اہمیت:
جو کچھ عرض کیا گیا اس سے اتنی بات تو خو ب دل نشین ہوگئی ہو گی کہ آںحضرت ﷺ نے اپنے دورِ حیات میں اس شعبہ کو کیا حیثیت دی۔ اس کے بعد عہدِ صحابہ پر نظر ڈالیے تو معلوم ہوگا کہ ان عاشقانِ رسول نے اس مسئلے میں بھی آپ کی ہدایت وراہنمائی پر پورا پورا عمل کیا۔ فاروقِ اعظم ؓ خلافت کے فرائض کے ساتھ امامت کے منصب پر بھی زندگی بھر فائز رہے، اور جو والی اور امام منتخب کیا وہ ہر اعتبار سے لائق، اور اپنا حال تو یہ ہوا کہ آخر کار امامت کرتے ہوئے ہی جامِ شہادت نوش فرمایا۔ آپ کے بعد حضرت عثمانِ غنی ؓ اور حضرت علی ؓ کا بھی اس باب میں یہی طرزِ عمل رہا، یہی نہیں، بلکہ خلافتِ راشدہ کے دور میں جتنے بھی والی اور گورنر منتخب کر کے دوسرے مقامات میں بھیجے گئے سبھوں نے اس منصب کو بھی سنبھالا، گویا اُن کے فرائض میں نماز کی امامت بھی داخل تھی، جس سے وہ کنارہ کشی نہیں کرسکتے تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس دور کے بعد بھی امامت گورنروں کے فرائض میں داخل رہی۔ ایک انگریز مسٹر ٹامس آرنلڈ خلافت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:
خلیفہ کے سیاسی فرمانروا ہونے کا مفہوم یہ تھا کہ وہ مذہبی اور سیاسی دو قسم کے اختیارات کا حامل ہے، مذہبی حیثیت سے اس کی حکومت کا حقیقی مقصد صرف دین کا تحفظ تھا۔ حامیٔ دین کی حیثیت سے وہ جنگ کرتا تھا، مذہب کا صدمہ پہنچانے والے افراد کو سزائیں دیتا تھا۔ نماز میں امامت، جمعہ کا خطبہ دینا بھی اس کا ایک منصبی فرض تھا۔ 1
غور کیجیے یہی وہ شعبہ ہے جس کے متعلق رحمتِ عالم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
اَلإِمَامُ ضَامِنٌ، وَالْمُؤَذِّنُ مُؤْتَمَنٌ، اللّٰہُمَّ أَرْشِدِ الأَئِمَّۃَ، وَاغْفِرْ لِلْمُؤَذِّنِیْنَ۔
’’امام ضامن اور مؤذن امین ہے۔ اے اللہ! اماموں کو ہدایت فرما اور مؤذنوں کی مغفرت فرما۔
امام احمد ؒ اور انتخابِ امام: