رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اعمال نیتوں ہی سے ہیں، اور آدمی کے لیے وہی ہے جو وہ نیت کرے، لہٰذا جس کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے لیے ہوئی اس کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے لیے ہے، اور جس کی ہجرت دنیا کے حصول کے لیے ہوئی، یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہوئی، تو اس کی ہجرت انہی چیزوں کے لیے ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی‘‘۔
نیت کو دخل:
اس حدیث کے ایک ایک جملہ کو غور سے پڑھنا چاہیے، یہ بات بالکل صاف ہے کہ اس حدیث سے یہ ثابت ہے کہ اعمال کی قبولیت کا دار ومدار نیت پر ہے، اور عمل پر اجر اسی وقت مرتب ہوتا ہے جب نیت پاک وصاف ہو، ہجرت جیسی مہتم بالشان چیز میں نیت کے فساد سے ثواب جاتا رہتا ہے۔ اور ایک اندھا جو اپنی شرعی مجبوری کی وجہ سے جہاد میں شریک نہیں ہوسکتا، اس کو نیت کی خوبی کی وجہ سے اجر ملتا ہے۔
نماز کے عملِ صالح ہونے میں کس مسلمان کو شبہ ہوسکتا ہے، لیکن یہی نماز اگر ریا کے جذبہ کے ساتھ پڑھی جائے تو باعثِ ہلاکت ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
{فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَO الَّذِیْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَO الَّذِیْنَ ہُمْ یُرَآئُوْنَO}1
ان نمازیوں کے لیے بڑی خرابی ہے جو اپنی نماز کو بھلا دیتے ہیں، اور جو اپنی نماز میں ریا کاری کرتے ہیں۔
وَیْلُ جہنم کا ایک گہرا طبقہ ہے، اور بعض نے وَیْلُ کا ترجمہ خرابی اور ہلاکت سے کیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ ریا کار کی نماز باعثِ محرومی اور ناکامی ہے، حدیث میں اس کو شرکِ اصغر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ دیکھا آپ نے اس قدر عظیم الشان عبادت اور ذرا سی نیت کی خرابی نے اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔
واقعی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ظاہر سے زیادہ باطن کو دیکھتا ہے، جسم سے زیادہ اس کی نظر باطن پر ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے:
إِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ إِلَی أَجْسَامِکُمْ وَلَا إِلَی صُوَرِکُمْ، وَلَکِنْ یَنْظُرُ إِلَی قُلُوْبِکُمْ۔ رواہ مسلم۔ (ریاض الصالحین للنووي: ۵)
’’اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا ہے، اس کی نظر تو یقینی طور پر تمہارے دلوں پر ہوتی ہے‘‘۔