وضو اس کے حقوق کے ساتھ ادا کیا اور محض نماز ہی کی نیت سے نکلا، اس سلسلے میں جو قدم اٹھائے گا اس کے بدلے میں ایک درجہ بلند ہوگا اور اس کا ایک گناہ معاف ہوگا۔
ضرورت بھی ہے کہ دربارِ خداوندی کے لیے پوری تیاری کے ساتھ چلیں، کپڑے بھی صاف ہوں، بدن اور جسم بھی پاک ہو، اور اعضائے وضو جو وہاں جاکر نمایاں طور پر مصروفِ مناجات اور اظہارِ تذلل میں پیش پیش ہوں گے، صاف ستھرے اور پاکیزہ ہوں۔
دعا پڑھتے آئے:
روانہ ہوتے ہوئے زبان پر یہ دعا ہو، جو دل کی گہرائیوں سے نکل رہی ہو:
اَللّٰہُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ بِحَقِّ السَّائِلِیْنَ عَلَیْکَ، وَبِحَقِّ مَمْشَائِيَ ہَذا إِلَیْکَ، فَإِنِّي لَمْ أَخْرُجْ بَطَرًا وَلَا أَشَرًا وَلَا رِیَائً وَلَا سُمْعَۃً، وَإِنَّمَا خَرَجْتُ اتِّقَائَ سُخْطِکَ، وَابْتِغَائَ مَرْضَاتِکَ، وَأَسْأَلُکَ أِنْ تُنْقِذَنِيْ مِنَ النَّارِ، وَأَنْ تَغْفِرَلِيْ ذُنُوبِيْ، فَإِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا أَنْتَ۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص نماز پڑھنے کے لیے نکلتا ہے اور یہ (اوپر والی) دعا پڑہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کے لیے ستر ہزار فرشتے مقرر فرماتا ہے، جو اس کے لیے فراغتِ نماز تک دعا کرتے ہیں‘‘۔1
ان جملوں کی دعا پڑھنے کا کتنا بڑا اجر رکھا گیا ہے۔ محنت معمولی اور مزدوری اتنی بڑی! اس پر بھی ہمارے دل اثر پذیر نہ ہوں تو حیرت کی بات ہے۔ میں نے اس مسئلے پر جتنا غور کیا کہ ’’نظامِ مساجد‘‘ سے متعلق کیا دینی اور دنیوی فائدے ہیں، سچ کہتا ہوں معلوم ہوا یہ اتھاہ سمندر ہے جس کی تہ تک پہنچنا آسان نہیں، کوئی قدم اور کوئی بولی اس سلسلے کی فائدے سے خالی نہیں۔
اچھی ہیئت میں آئے:
روانہ ہوتے ہوئے ایک نظر اپنی ظاہری ہیئت پر بھی ڈال لی جائے، اور یہ یقین کرتے ہوئے کہ ہم ایک عظیم المرتبت دربار کو جا رہے ہیں، اتنا عظیم المرتبت کہ اسے دنیا کی جنت سے تعبیر کیا جائے تو مبالغہ نہیں۔ حدیث اوپر گزر چکی ہے جس میں ان درباروں کو جنت کا باغ کہا گیا ہے، اس لیے جہاں ہر طرح کی نجاست حقیقی اور حکمی سے پاک ہو کر جانا ضروری ہے،