(رواہ أحمد) (المشکاۃ: باب الرکوع)
’’لوگوں میں بدترین چور وہ شخص ہے جو اپنی نماز میں چوری کرتا ہے‘‘۔ صحابہ ؓ نے پوچھا: نماز کی چوری کیسی؟ آپ نے فرمایا: ’’نماز کی چوری اس کا رکوع اور اس کے سجدے پورے طور پر ادا نہ کرنا‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ بعض امام تعدیلِ ارکان کو فرض تک کہتے ہیں، اور وجوب کا درجہ دینا تو لازمی معلوم ہوتا ہے، لہٰذا یہ تمام حدیثیں سامنے رکھی جائیں اور تخفیفِ صلاۃ (ہلکی نماز) کا مطلب سمجھیں۔ مقتدی کے ساتھ ارکانِ نماز اور حقوقِ نماز کا لحاظ بھی ضروری ہے، اسی لیے کہا گیا کہ امام کی ذمہ داری بہت اہم اور نازک ہے۔ اور امام کو جو ضامن کہا گیا ہے اس سے اس کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے، تاکہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں پورا اتر سکے۔
باطنی اصلاح
جس عظیم الشان عبادت کے ظاہری احکام کی بجا آوری کی تاکید کا یہ عالم ہے، بلاشبہ اس کے باطنی احکام کی اہمیت تو اور بھی زیادہ ہوگی، کیوں کہ اگر ظاہر کو اعضا وجوارح کی حیثیت حاصل ہے تو باطن کو قلب کی، پھر اگر قلب ہی میں فساد پیدا ہو جائے تو اعضا وجوارح کب تک کار آمد رہ سکتے ہیں۔ ارشادِ نبوی ﷺ ہے:
أَلَا إِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَۃً، إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّہُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ، أَلَا وَہِيَ الْقَلْبُ۔ (البخاري)
’’سنو! جسم میں ایک لوتھڑا ہے جس کی اصلاح سارے جسم کو صالح رکھتی ہے، اور اس کا فساد کل جسم کو بگاڑ دیتا ہے، اور سنو! وہ دل ہے‘‘۔
اس دل پر احسان کی پوری کیفیت طاری ہونی چاہیے جو جسم کا سلطان ہے۔ نماز کی حالت میں مسجد کی جماعت یہ محسوس کرے کہ ہم رب العزت کے دربار میں اس کے رو برو کھڑے ہیں اور وہ ہمیں دیکھ رہا ہے، اعمال وافعال کو بھی اور دل کی ہر ایک کھٹک کو بھی۔
أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ، فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہُ یَرَاکَ۔ (البخاري)
’’اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو تو اس احساس کے ساتھ کہ اس کو دیکھ رہے ہو، ورنہ وہ بہرحال دیکھ رہا ہے‘‘۔
نمازی کے دل میں جب یہ یقین جاگزیں ہو جائے گا، تو وہ اللہ اکبر کہتے ہی اپنے کو قہار وجبار اور غفور ورحیم مالک کے روبر وپائے گا، اور اس کی عظمت وجلال اور اس کی رحیمی وکریمی کا پر تو اپنی طرف بڑھتے دیکھے گا، جس سے نمازی کا ظاہر وباطن