إِیَّاکُمْ وَہَیْشَاتِ الْأَسْوَاقِ۔
’’صف بندی میں بازار کے سے شور وہنگامہ سے بچو‘‘۔
رُصُّوْا صُفُوْفَکُمْ، وَقَارِبُوْا بَیْنَہَا وَحَاذُوْا بِالْأَعْنَاقِ۔ فَوَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ إنِّيْ أَرَی الشَّیْطَانَ یَدْخُلُ مِنْ خَلَلِ الصَّفِّ۔ (أبو داود: ما جاء في تسویۃ الصفوف)
’’تم اپنی صفوں کو خوب درست کرو، مل مل کر کھڑے ہو اور شانہ سے شانہ ملا رکھو، بخدا میں شیطان کو صفوں کے شگاف میں گھستے دیکھتا ہوں‘‘۔
ان سارے مسائل پر غور وفکر کی نظر دوڑا جائیں، اور ان کی دینی اور دنیاوی حکمتوں کو تلاش کرجائیں، تو پتہ چلے کہ ان شرعی قوانین میں کتنے بے شمار فوائد مضمر ہیں۔
امام کی قربت:
صفوں میں شریعت نے ترتیب کا لحاظ رکھا ہے کہ امام سے جو جس قدر قریب ہوگا، وہ اسی اعتبار سے فضائل کا مستحق قرار پائے گا۔ چناں چہ حدیث میں ہے کہ نزولِ رحمت کی ابتدا امام سے ہوتی ہے اور وہ بڑھ کر ساری صفوں کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔
إِذَا نَزَلَتِ الرَّحْمَۃُ عَلَی أَہْلِ الْمَسْجِدِ بَدَأَتْ بِالْإِمَامِ، ثُمَّ أَخَذَتْ یَمِیْنًا، ثُمَّ عَطَفَتْ عَلَی الصُّفُوْفِ۔
’’اہلِ مسجد پر نزولِ رحمت کی ابتدا امام سے ہوتی ہے، پھر وہ دائیں اور پھر تمام صفوں پر متوجہ ہوتی ہے‘‘۔ (کنز العمال: ۴/۱۲۱)
معلوم ہوا صفِ اول کو جو امام کے قریب ہوتی ہے، دوسری صفوں پریک گونہ فضیلت حاصل ہے۔ آں حضرت ﷺ کا فرمان ہے کہ ’’اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ صفِ اول کو کیا مرتبہ حاصل ہے، تو پھر وہ جس طرح بھی ہوسکے صفِ اول ہی میں جگہ کے حصول کی کوشش کریں‘‘۔
لَوْ یَعْلَمُ النَّاس مَافِي النِّدَائِ وَالصَّفِّ الْأَوَّلِ، ثُمْ لَمْ یَجِدُوْا إِلَّا أَنْ یَسْتَہِمُوْا عَلَیْہِ لَاسْتَہَمُوْا۔ (مسلم: باب تسویۃ الصفوف: ۱/۱۸۲)
’’لوگوں کو اذان اور صفِ اول کی حیثیت کا علم ویقین ہو جائے، تو وہ اس کے حصول کی جدو جہد کریں، چاہے قرعہ اندازی کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو‘‘۔