اجتماع کی یاد تازہ کرتے ہیں جو پروردگارِ عالم کے روبرو ہوگا، اور یہ مسلّم ہے کہ اس مقصد کے لیے دنوں میں وہ دن مناسب تھا جس میں ساری مخلوق جمع کی جائے گی اور وہ جمعہ کا دن ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس دن کی فضیلت وشرافت کے پیشِ نظر اس اُمت کے لیے اسی دن کو یہ فخر عطا کیا، اور اپنی بندگی کے لیے اس دن میں ان کا اجتماع مشروع فرمایا اور اسی کو اس کی شرافت کی وجہ سے مقدر فرمایا۔ پس یہ دن شرعی طور پر دنیا میں جمع ہونے کا دن ہے، اور قدر ومنزلت کے لحاظ سے آخرت میں۔ (زاد المعاد، باب الجمعۃ)
قیامت کے دن حشر میں جو اجتماع ہوگا وہ بھی جمعہ ہی کا دن ہوگا، اسی لیے یقینی طور پر مردِ مومن کا ذہن جمعہ کے اجتماع سے بڑے دن کے اجتماع کی طرف جائے گا، اور پھر ساتھ ہی وہ سارے حالات جو میدانِ حشر میں پیش آنے والے ہیں ایک ایک یاد آئیں گے اور اپنے اعمال واخلاق کا نقشہ تھوڑی دیر کے لیے آنکھوں میں پھر جائے گا، اور اس سے یقینی طور پر قلبِ مومن متاثر ہوگا۔
پند ونصیحت:
رحمتِ عالم ﷺ شاید اسی وجہ سے کبھی کبھی نمازِ جمعہ میں سورۂ جمعہ تلاوت فرماتے تھے جس میں نمازِ جمعہ کے لیے تاکیدی حکم ہے، سعي إلی الجمعۃ کا وجوب ہے، اور ان تمام امور کے ترک کا حکم ہے جو نمازِ جمعہ اور اجتماعِ جمعہ کی شرکت سے مانع ہوسکتے ہیں۔ پھر ذکر اللہ کی کثرت پر بھی زور دیا گیا ہے، تاکہ یہ صلاح وفلاحِ دارین کا ذریعہ بن سکے اور کامیابی سے ہم کنار کردے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہونا باعثِ ہلاکت ہے۔ اور آپ دوسری رکعت میں سورۂ منافقون پڑھتے تھے، جس سے غالباً آپ کا منشا یہ تھا کہ اُمت کو نفاق سے ڈرائیں جو دینی ودنیاوی تباہی وبربادی کا سر چشمہ ہے۔ نیز امت کو اس بات پر متنبہ کرنا مقصود تھا کہ مال، اولاد، اور دنیا کا لالچ تم کو نمازِ جمعہ اور اللہ کی یاد سے خبردار! کہیں روک نہ دے۔ اور آخر میں موت کی یاد تازہ کرا کے اصل مقصد کی طرف متوجہ کرنا اور اس کے موانع سے ہوشیار کرنا تھا، کہ جو کچھ کرنا ہے یہیں کرلو، وہاں اس کا موقع نہیں ہے، بعدِ موت ساری تمنا اور آرزو بے سود ہوگی۔1
پورا شہر ایک امام کے پیچھے: