آں حضرت ﷺ کا ارشاد ہے:
لَوْ یَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي النِّدَائِ وَالصَّفِّ الْأَوَّلِ، ثُمَّ لَمْ یَجِدُوْا إِلَّا أَنْ یَسْتَہِمُوْا عَلَیْہِ لَاسْتَہِمُوْا۔ (رواہ البخاري مسلم والمشکاۃ)
’’صفِ اول اور اذن دینے کی فضیلت لوگوں کو معلوم ہو جائے، تو قرعہ کی نوبت آئے تو بھی حاصل کریں‘‘۔
اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ اگر مؤذن نے حسبۃً للہ خوشنودیٔ الٰہی کی خاطر کچھ دنوں مسلسل اذان دی، تو اس کو دوزخ کی آگ سے خلاصی مل جائے گی۔
مَنْ أَذَّنَ سَبْعَ سِنِیْنَ مُحْتَسِبًا کُتِبَ لَہٗ بَرَائۃٌ مِنَ النَّارِ۔ (مشکوٰۃ)
’’حسبۃً للہ جو شخص سات سال اذان دے گا اس کے لیے دوزخ سے براء ت لکھ دی جائے گی‘‘۔
اذان پر اُجرت:
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اذان پر اُجرت قبول نہ کرنی چاہیے۔ حدیث میں صراحۃً بھی آیا ہے کہ مؤذن اُس کو رکھو جو اذان پر اُجرت نہ لے۔1
یہیں یہ مسئلہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اذان کی اُجرت کے متعلق فقہا اور علما کا کیا فیصلہ ہے، اور اسی کے ضمن میں امام کے مشاہرہ کے متعلق بھی بات طے ہو جائے۔
مؤذن کے متعلق ابھی گزرا کہ ایسا ہو جو اپنا بدلہ خدا سے چاہتا ہو، آدمی سے نہ وصول کرے۔ اور اسی پر آگ سے براء ت کی خوش خبری ہے۔
متقدمین نے عبادات پر اُجرت کی اجازت نہیں دی ہے، اور متأخرین نے حالات کے پیشِ نظر اجازت دی ہے، دونوں جماعتیں اپنے زمانے کے حالات وواقعات سے متأثر ہیں۔ کوئی شبہ نہیں کہ متقدمین کا فیصلہ مشکاۃِ نبوت کی روشنی میں زیادہ انسب ہے، مگر دین سے جب بے رغبتی بڑھ گئی اور علما نے دیکھا کہ اُجرت کی اجازت نہیں دی جاتی، تو رہا سہا دین بھی جاتا
رہے گا، دوسرے معاوضہ کی شکل بڑی حد تک جواز کے حدود میں آتی ہے، تو اجازت دے دی۔ شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی ؒ نے اس پر ایک جامع تحریر لکھی ہے، فرماتے ہیں:
امامت، اذان اور خطبہ دینے پر اُجرت قبول کرنے میں علما کا اختلاف ہے، ایک جماعت کہتی ہے: یہ سب امور عبادات میں داخل ہیں اور