’’بے شک اللہ پاک ہے، وہ بجز پاک اور حلال کے قبول نہیں کرتا‘‘۔
زانیہ کی تعمیر کردہ مسجد:
مالِ حرام سے مسجد ہی نہیں، بلکہ اس کا استعمال کہیں بھی جائز نہیں ہے، پھر مسجد میں اگر کوئی لگاتا ہے تو وہ دین پر ظلم کرتا ہے۔ اسی وجہ سے علما نے لکھا ہے کہ زانیہ یا مغنیہ عورت اگر زنا اور غنا کی کمائی سے مسجد بنائے، تو یہ مسجد ہی نہیں ہوگی۔ مولانا عبدالحی ؒ فرنگی محلی نے اس مسئلے کی دلیل میں اسی اوپر والی حدیث کو پیش کیا ہے، اس کی وضاحت ایک دوسرے استفتاء کے جواب میں فرماتے ہیں کہ ’’مسلم‘‘ اور ’’ترمذی‘‘ میں ایک حدیث رافع بن خدیج سے آئی ہے، اس میں آں حضرت کا یہ فرمان ہے: ’’مَہْرُ الْبَغِيِّ خَبِیْثٌ‘‘ (زانیہ کی کمائی حرام ہے)۔ کسی کو خبیث کے معنی جو حرام کیا گیا ہے، اس میں شبہ ہوسکتا تھا، اس لیے انھوں نے اس کو سید جمال الدین محدث شیخ عبدالحق شارح ’’مشکاۃ‘‘ اور ملا علی قاری کے حوالے سے ثابت کیا ہے۔ ملا علی قاری کی دلیل یہ ہے:
مہر البغيِّ خبیث أي حرام إجماعا؛ لأنہا تأخذہ عوضا عن الزنا
المحرم، ووسیلۃ الحرام حرام۔ وسماہ مہرا مجازا؛ لأنہ في مقابلۃ البضع۔ (فتاویٰ عبدالحي: ۳/۳۸)
زانیہ کی کمائی خبیث یعنی بالاتفاق حرام ہے، اس لیے کہ وہ اس کو زنا کے معاوضہ میں لیتی ہے جو حرام ہے، اور حرام کا وسیلہ بھی حرام ہے۔ اس کا نام مہر مجازاً رکھا گیا ہے کہ وہ شرم گاہ کے مقابلے میں ہے۔
ماحصل یہ ہوا کہ مالِ حرام سے مسجد نہیں بنائی جاسکتی، وہ حرام مال زنا وغنا سے حاصل کیا گیا ہو، یا کسی اور ناجائز وحرام طریقے سے۔ فرض کرلیجیے اگر کوئی اس طرح مالِ حرام کی تیار کردہ مسجد ہے اور اس میں کسی نے نماز پڑھ لی، تو گو فرض ذمہ سے ساقط ہو جائے، گا مگر ثواب میں نقص ضرور پیدا ہوگا، اور مسجد کے بنانے والے کو بھی کوئی ثواب نہیں ملے گا۔
مالِ حرام سے تعمیر کردہ مسجد کا حکم: