اس واقعہ کو ’’بخاری ومسلم‘‘ نے بھی نقل کیا ہے، جس کے راوی عبداللہ بن عمر ؓ ہیں، لکھا ہے کہ مدینہ میں پہنچ کر یہ مسئلہ زیرِ بحث آیا، لوگوں نے وہی تجویزیں پیش کیں جو گزریں، حضرت عمر ؓ نے یہ سن کر فرمایا:
أوَلا تبعثون رجلًا ینادي بالصلاۃ؟ فقال رسول اللّٰہ ﷺ : یا بلال، قُمْ فَنَادِ بِاالصَّلَاۃِ۔ (مشکاۃ: باب الأذان)
کیوں نہیں بھیج دیتے کسی کو کہ نماز کے لیے پکار دے، رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال ؓ سے فرمایا: جاؤ !نماز کے لیے آواز دے دو۔
اسی زمانے میں حضرت عبداللہ بن زید بن عبدربہ ؓ نے ایک خواب دیکھا، جس میں ان کو کلماتِ اذان واقامت سکھائے گئے، انھوں نے اپنا یہ خواب آں حضرت ﷺ کی خدمت میں بیان کیا، آپ نے اس خواب کی تصدیق فرمائی۔ خواب کا خلاصہ یہ ہے کہ انھوں نے دیکھا ایک شخص ہاتھ میں ناقوس لیے ہوئے ہے، یہ دیکھ کر انھوں نے پوچھا: ناقوس فروخت کروگے؟ ناقوس والے نے مقصد دریافت کیا۔ انھوں نے کہا: نمازیوں کو بلاؤں گا، اس نے کہا: تم کہو تو اس کام کے لیے اس سے اچھی شکل بتا دوں۔ انھوں نے کہا: اچھا ہے، سکھا دو۔ اس مردِ خدا نے اذان واقامت کے کلمات مرتب طور پر بتا دیے۔ یہ جب نیند سے بیدار ہوئے، آپ کی خدمت میں آئے، واقعہ بیان کیا۔ آپ نے فرمایا: إنہا لرؤیا حق إن شاء اللّٰہ (خدا نے چاہا تو یہ خواب حق ہے)۔ ’’جاؤ بلال کو جو تم سے بلند آواز ہیں، ان کو بتلاؤ، اور وہ ان کلمات کو پکاریں‘‘۔ چناں چہ ایسا ہی ہوا حضرت عمر ؓ نے اس آواز کو جب سنا اپنی چادر کھینچتے ہوئے حاضر ہوئے، اور فرمانے لگے:
یا رسول اللّٰہ، والذي بعثک بالحق، لقد رأیتُ مثل ما اُری۔ فقال رسول اللّٰہ ﷺ : فلِلّٰہ الحمد۔ (المشکاۃ: باب الأذان)
یا رسول اللہ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا، میں نے بھی وہی دیکھا جو ان کو دکھلایا گیا، یہ سن کر آپ نے اللہ کا شکر ادا کیا۔
کلماتِ اذان کی حیثیت:
اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ صاحب ؒ فرماتے ہیں:
یہ واقعہ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ احکامِ شرعیہ کا مدار حکمتوں اور مصلحتوں پر ہے، حکمتِ الہیہ کا تقاضا ہوا کہ اذان صرف اعلام اور آگاہی ہی نہ ہو، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ شعائرِ دین میں ایک مستقل شعار بھی ہو، اس طرح سے جو لوگ غافل ہوں یا خبردار، لیکن مسجد سے دور رہتے ہیں، ان کے سروں پر پکار دی جائے اور اس شعائرِ دین کی عزت وتوقیر کی جائے، اور جو جماعت اسے قبول کرے اس کے متعلق یہ علامت قرار پاجائے کہ یہ دینِ الٰہی کے تابع اور اس کے منقاد ہیں۔ اور یہی وجہ ہوئی کہ کلماتِ اذان ذکر اللہ اور شہادتین سے