اس میں شبہ نہیں ہے کہ اپنے حال کے اعتبار سے کفر وشرک ہی ظلمِ عظیم ہے، مگر اس لحاظ سے کہ تخریبِ مساجد کے خواہاں دوسروں کو ہدایت سے روکتے ہیں اور اسلام کے ایک بڑے شعار کو مٹاتے ہیں، وہ اپنے اس فعل میں کفرو شرک سے بھی بڑھ کر برے کام کے مرتکب ہوتے ہیں، کیوں کہ یہ دربارِ الٰہی روئے زمین پر اسلام کا ایک بڑا شعار ہے۔
اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں:
مساجد کی اہمیت کا ایک اور طرزِ بیان اختیار فرمایا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ رب العزت ان مقدّس گھروں کی حفاظت ونگرانی فرماتا ہے۔ کوئی قوم جب حد سے تجاوز کرتی ہے اور معابد کے مٹانے کے درپے ہوتی ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کو تباہ وبرباد کر ڈالتا ہے، اور اس طرح اپنے معبدوں کی نگرانی کر کے اسے بچالیتا ہے:
{وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًاط}۔1
اگر ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ لوگوں میں ایک دوسرے کا زور نہ گھٹاتا تو اپنے اپنے زمانے میں نصاریٰ کے عبادت اور خلوت خانے اور یہود کے عبادت خانے اور مسلمانوں کی وہ مسجدیں جن میں بکثرت اللہ تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہے، منہدم ہوگئی ہوتیں۔
اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ ہر زمانے میں اس وقت کی شریعت کے مطابق جو گھر بھی بنائے گئے، اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت فرمائی اور ان کو دشمنوں کے دستِ برد سے بچایا۔ اور ہمارا یہ دور جو رحمتِ عالم ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کا دور ہے اور یہ آخری شریعت ہے، اس کے مطابق جو صحیح معنی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے گھر ہیں اُن کی مِن جانب اللہ حفاظت ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی۔ بعض حفاظت ایسی ہوتی ہے جس کو ہم محسوس نہیں کرپاتے ہیں اور بعض کو ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں۔
تاریخ میں مسجدِ حرام پر ابرہہ بادشاہ کے حملے کی داستان تازہ ہے اور اس کا جو حشر ہوا وہ قرآنِ پاک جیسی ان مٹ کتاب میں مندرج ارشادِ ربانی ہے:
{وَّاَرْسَلَ عَلَیْہِمْ طَیْرًا اَبَابِیْلَO تَرْمِیْہِمْ بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍO فَجَعَلَہُمْ کَعَصْفٍ مَّاْکُوْلٍO}2
یہ کس قدر کھلی حفاظت تھی جو تاریخ میں اب تک تازہ ہے۔
مسجد سے متعلق قرآنِ پاک کی یہ چند آیتیں جو مصرّح ہیں پیش کردی گئیں، ضمناً جو تذکرہ آیا ہے اسے یہاں نظر انداز کردیا گیا، ان میں بار بار غور کیجیے اور ہر پہلو سے ان میں فکر ونظر سے کام لیجیے۔
احادیث میں فضائل: