میں بانٹ کر اپنے قابو کا متمنی ہوتا ہے، اس یک جائی عبادت سے اس کی بھی رسوائی ہوتی ہے، اور اس طرح اس کا داؤ بیچ بنا بنایا ختم ہو جاتا ہے جس کی طرف آں حضرت ﷺ نے پاکیزہ اشارہ فرمایا تھا:
مَا مِنْ ثَلَاثَۃٍ فِيْ قَرْیَۃٍ أَوْ بَدْوٍ، وَلَا تُقَامُ فِیْہِمُ الصَّلَاۃُ، إِلَّا قَدِ اسْتَحْوَذَ عَلَیْہِمُ الشَّیْطَانُ۔
’’کوئی آبادی ہو یا جنگل جس میں تین آدمی رہتے ہوں، جب اُس میں نماز قائم نہیں کی جاتی ہے تو شیطان اُن پر قابو پالیتا ہے‘‘۔
ماحصل یہ تھا کہ جہاں جماعت ہوسکتی ہے وہاں جماعت ہرگز نہ ترک کی جائے، کہ اس طرح شیطان کو موقع مل جائے گا اور پھر دین میں سستی کا دروازہ کھل جائے گا، اور جماعت کا اہتمام جب شدومد سے باقی رہے گا تو پھر شیطان کی رسوائی ضروری ہے۔1
تزکیہ اور تالیفِ قلوب:
ابن العربی مالکی ؒ نے مسجدِ ضرار والی آیت کے ضمن میں لکھا ہے، اور جماعت کے ایک پہلو تزکیہ وتصفیہ اور تالیفِ قلوب پر کافی روشنی ڈالی ہے۔ ان کے الفاظ چوں کہ جچے تلے ہیں، اس لیے خود اس عبارت کو بھی ملاحظہ فرمائیں:
یعني أنہم کانوا جماعۃ واحدۃ في مسجد واحد، فأرادوا أن یفرقوا
شملہم في الطاعۃ، وینفردوا عنہم للکفر والمعصیۃ۔ وہذا یدلک علی أن المقصدَ الأکثر والغرضَ الأظہر من وضع الجماعۃ تألیفُ القلوب والکلمۃُ علی الطاعۃ، وعقدُ الذمام والحرمۃ بفعل الدیانۃ، حتی یقع الأُنس بالمخالَطۃ، وتصفوَ القلوبُ من وضر الأحقاد الحسادۃ۔ ولہذا المعنی تفطن مالک ؒ ، حتی إِنہٗ قال: لا تصلی جماعتان في مسجد واحد، لا بإمامین ولا بإمام واحد، حتی کان ذلک تشتیتًا للکلمۃ، وإبطالا لہذہ الحکمۃ، وذریعۃ إلی أن نقول: من أراد الانفراد عن الجماعۃ کان لہٗ عذر، فیقیم جماعتہ، ویقدم إمامہ، فیقح الخلاف، ویبطل النظام۔ (أحکام القرآن: ۱/۴۱۴، ۴۱۵)
سارے مسلمان ایک جماعت تھے اور ایک مسجد میں نماز پڑھتے تھے، منافقین نے چاہا کہ طاعت میں ان کا شیرازہ منتشر کردیں اور ان سے علیحدہ رہ کر کفر ومعصیت کو فروغ دیں۔ اس واقعے سے معلوم ہوا کہ خدائی نظمِ جماعت کی غرض وغایت یہ ہے کہ دلوں میں ارتباط، طاعت میں یک رنگی اور شیرازہ بندی قائم رہے، تاکہ باہم انس ومحبت پیدا ہو، اور کینہ وکپٹ اور دنائت سے دل صاف اور پاک رہے۔ اور اس معنی کو امام مالک ؒ نے خوب سمجھا، تا آں کہ انھوں نے یہ فرمایا کہ ایک مسجد میں دو جماعتیں نہیں پڑھی جاسکتی ہیں، نہ دو امام کے ساتھ اور نہ ایک امام کے ساتھ، کہ یہ کلمہ کے تشتت اور اس کی حکمتِ بالغہ کے ابطال کا سبب بن جائے، اور تاکہ یہ اس بات کا ذریعہ ہوجائے کہ ہم جماعت