زندگی میں انھی جگہوں کو کہیں کہیں حدیث میں ’’مسجد‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نوافل پڑھنے کا حدیث میں کافی اشارہ موجود ہے۔ آں حضرت ﷺ کا ارشاد ہے:
إِذَا قَضَی أَحَدُکُمُ الصَّلَاۃَ فِيْ مَسْجِدِہِ فَلْیَجْعَلْ لِبَیْتِہِ نَصِیْبًا مِنَ الصَّلَاۃِ۔ (البخاري)
’’تم میں سے کوئی جب اپنی مسجد میں نماز ادا کرچکے، تو اس کو اپنے گھر کے لیے بھی کچھ حصہ بنانا چاہیے‘‘۔
محدثین نے اس سلسلے میں نوافل کو گھر کے لیے لکھا ہے، فرض پر یہ حکم کبھی بھی محمول نہیں ہوسکتا، اور یہی مطلب ہے اس حدیث کا جس میں آپ نے فرمایا کہ ’’گھر کو قبر نہ بنالو‘‘۔ 1
آں حضرت ﷺ نے مسجد البیت بنانے کا حکم بھی دیا ہے اور ساتھ ہی اس کے پاک وصاف رکھنے کا بھی۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں:
أمر رسول اللّٰہ ﷺ ببناء المسجد في الدور، وأن ینظف ویطیب۔ (المشکاۃ عن الترمذي وغیرہ: ۱/۶۹)
رسول اللہ ﷺ نے گھروں میں مسجد بنانے کا حکم دیا اور اس کے پاکیزہ اور معطر رکھنے کا۔
لفظ دُور کے معنی:
’’دُور‘‘ جمع ہے ’’دار‘‘ کی، جس کے مشہور معنی گھر کے ہیں، مگر لغت میں محلہ کو بھی کہتے ہیں۔ قرآن میں ’’دار‘‘ بمعنی محل (جگہ) آیا ہے، اسی وجہ سے اس حدیث میں ’’دُور‘‘ سے محلہ اور گھر دونوں مراد ہیں۔ ’’شرح السنہ‘‘ میں ’’دُور‘‘ بمعنی محلوں کے لیے گئے ہیں۔ حضرت سفیان ؒ کہتے ہیں: بناء المسجد في الدور، یعني القبائل۔2
احکام میں مسجد اور مسجد البیت کے بہت فرق ہے، مسجد البیت کی وہ تعظیم نہیں ہے جو مسجد کی ہے۔
مواضعِ مسجد
تعمیرِ مسجد کے ساتھ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ مسجد کہاں اور کیسی بنائی جائے؟ قرآن اور حدیثِ نبوی کی روشنی میں فقہا نے جو کچھ لکھا ہے، اُس کا خلاصہ درج کیا جاتا ہے۔
عہدِ نبوی کی دو مسجدیں بہت ممتاز ہیں: ایک قبا اور دوسری نبوی۔ ان دونوں مسجدوں نے آں حضرت ﷺ کے دستِ مبارک سے بنیاد وتعمیر کا شرف حاصل کیا ہے، اور دونوں ہی کے متعلق قرآنِ پاک کا اعلان ہے: {اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی} کہ ان کی بنیاد تقویٰ پر ہے۔ مسجدِ حرام کی داغ بیل خود رب العزت کی بتائی ہوئی زمین پر ڈالی گئی۔ یہ بھی آپ پڑھ آئے ہیں کہ مسجدِ نبوی کے لیے قیمت دے کر زمین لی گئی تھی، یہ بھی بتایا جاچکا ہے کہ مسجد کے لیے حلال اور پاک چیز ہی قبول کی جاسکتی ہے۔ ان سب کو ملاکر پڑھیے تو خود بخود یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ زمین جس پر مسجد بنانا ہو، ایسی ہو جو احکامِ