اجتماع کے مرکزی گھر اور اس کی تعمیر
اب تک جو کچھ لکھا گیا، اس سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ قدرتی اجتماعی نظام کے لیے مرکزی گھروں کا ہونا ضروری ہے، جس کی ابتدا حضرت آدم ؑ سے ہی ہوچکی تھی، اور وہ سلسلہ آں حضرت ﷺ پر آکر پھیل گیا اور ہر پہلو سے مکمل ہوگیا۔
مرکزی گھروں کی تعمیر:
اب یہاں اس بات کی تفصیل کرنی ہے کہ اس گھر کی تعمیر میں کن امور کا لحاظ ضروری ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ کے زمانے میں ان مرکزی مکانوں کا اہتمام ایک مستقل نظام بن گیا، آپ نے ان کے بنانے کا عام حکم دیا، اس طرح کہ کوئی آبادی جہاں آپ ﷺ کے ماننے والے ہوں، ان گھروں کے وجود سے خالی نہ ہو۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا بیان ہے کہ:
أمر رسول اللّٰہ ﷺ ببناء المسجد في الدور۔ (أبو داود: باب اتخاذ المسجد في الدور)
رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ تمام محلوں میں مسجد بنائی جائے۔
چناں چہ آپ نے بھی ان گھروں کو ہر مسلم آبادی میں قائم کیا اور آپ کے جان نثار صحابہ کرام ؓ نے بھی۔ گزر چکا ہے کہ مسجدِ قبا اور مسجدِ نبوی تو خود آپ نے اپنے ہاتھوں سے بنائی، اور دوسرے لوگوں نے بھی اپنے اپنے گاؤں میں مسجدیں بنائی ہوں گی، اور آپ کے بعد جب فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ حکم ہر جگہ بجا لایا گیا، کوئی ایسی جگہ تاریخ میں ہماری نظر سے نہیں گزری جسے مسلمانوں نے اپنے زمانے میں فتح کیا ہو اور اس میں مسجد نہ بنی ہو۔ فتوح البلدان اٹھا کر دیکھئے، ہر آبادی میں آپ کو مسجد نظر آئے گی، حضرت عمر فاروق ؓ کا یہ فرمان اب بھی کتابوں میں موجود ہے:
عن عطاء: لما فتح اللّٰہ الأمصار علی عمر ؓ أمر المسلمین أن یبنوا المساجد۔ (کشاف: ۱/۴۰۸، وتفسیرات أحمدي: ۲۸۳)
حضرت عطا سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت عمر ؓ کے زمانے میں شہروں کو فتح کیا تو آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ سب مسجدیں بنائیں۔