دربارِ الٰہی میں دنیا کے کام
باطمینان بیٹھے:
مسجد میں جہاں جگہ مل جائے بیٹھ جائے، نہ نمازیوں کی گردن پھاندی جائے، نہ جگہ کے لیے شور وہنگامہ کیا جائے، نہ صف میں گھس کر جہاں جگہ نہ ہو مصلی کو تکلیف دینے کی کوشش کی جائے، نہ نماز پڑھنے والوں کے آگے سے گزرنے کی جرأت کی جائے، نہ انگلی وغیرہ چٹخائی جائے کہ ان کی ممانعت آئی ہے۔ ہر ایسی حرکت سے جو خلافِ ادب اور شریعت کی نگاہ میں ناپسندیدہ ہے، اجتناب کیا جائے، موقع ہو تو ذکر وشغل اور نوافل میں وقت گزارے، ورنہ خاموش باادب بیٹھا رہے۔1
یہ مسجد میں آنے کے وہ آداب ہیں جن کا عمل میں لانا از بس ضروری ہے۔ پھر یہ کہ میں نے وہی آداب بیان کیے ہیں جو رات دن پیش آتے ہیں اور ان کا برتنا ہر ایک پر لازم ہے، بقیہ وہ آداب جن کو شریعت نے اس سلسلے میں بیان کیا ہے اور وہ یہاں ضبطِ تحریر میں نہیں آسکے ہیں، ان پر بھی عمل کرنا چاہیے۔
دنیا کی باتوں سے اجتناب:
آدابِ مسجد سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ اس میں دنیا کی باتیں کرنے سے احتراز کیا جائے، وہ باتیں جائز ہوں خواہ ناجائز، اس زمانے میں اس گناہ میں عوام وخواص دونوں ہی کم وبیش مبتلا ہیں، اس لیے ذرا تفصیل سے بیان کیے جا رہے ہیں۔
یہ اس قدر اہم مسئلہ ہے کہ قرآنِ پاک نے اپنے معجزانہ پیرانے میں اسے بیان کیا، ارشادِ ربانی ہے:
{وَّاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰہِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًاO}۔2
بلاشبہ مسجدیں اللہ تعالیٰ کی ہیں پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو مت پکارو۔
مفسرین نے اس آیت کے ضمن میں مسجد میں دنیا کی گفتگو کا مسئلہ کھول کر لکھا ہے اور اس کو واضح کیا ہے کہ یہ گھر اللہ تعالیٰ