اصولاً متبعین اور مقتدیین کی جماعت سے کٹ گیا، اور اپنی اس بے با کانہ روش سے خطرے میں گھر گیا، اور عذابِ الٰہی کو اس نے اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ کسی اور کا نہیں، بلکہ سید الکونین ﷺ کا ارشاد ہے:
أَمَا یَخْشَی الَّذِيْ یَرْفَعُ رَأْسَہُ قَبْلَ الإِمَامِ أَنْ یُحَوَّلَ رَأْسُہُ رَأْسَ حِمَارٍ؟ (مسلم: باب تحریم سبق الإمام إلخ: ۱/۱۸۱)
’’جو امام سے پہلے اپنا سر اٹھاتا ہے کیوں وہ اس سے نہیں ڈرتا کہ اس کا سر گدھے کے سر میں تبدیل کردیا جائے‘‘۔
جرم بظاہر اتنا معمولی، مگر سزا اتنی بڑی؟ بلاشبہ اس نے احترامِ قانون پسِ پشت ڈال دیا اور یک جہتی اور نظامِ وحدت میں خلل انداز ہوگیا، جو اپنی نوعیت میں معمولی ہونے کے باوجود بڑا جرم ہے۔ کیوں کہ اس نے اپنی پیشانی رب العزت کے قانون سے نکال کر شیطان کے ہاتھوں میں دیدی۔
اَلَّذِيْ یَرْفَعُ رَأْسَہَ أَوْ یَخْفِضُہُ قَبْلَ الإِمَامِ، فَإِنَّمَا نَاصِیَتُہُ بِیَدِ الشَّیْطَانِ۔ رواہ مالک۔ (المشکاۃ)
’’جو مقتدی اپنا سر امام سے پہلے اٹھاتا یا جھکاتا ہے، تو بلاشبہ اس کی پیشانی شیطان کے ہاتھ میں ہے‘‘۔
اس عنوانِ قباحت سے بڑھ کر اور کیا روک تھام کی کوشش ہوسکتی ہے؟ اس قباحت وشناعت کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ نظامِ وحدت کی اہمیت کا احساس خوب ذہن نشین ہو جائے، تاکہ اس کا فائدہ ظاہراً باطناً ہر طرح نمایاں ہوسکے، کیوں کہ بہت سے فوائد کا دار ومدار محض اس یک جہتی اور امام کی کامل اقتدا میں مضمر ہے۔
آں حضرت ﷺ نے اپنی عملی زندگی میں اس کی پوری نگرانی فرمائی۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ آپ نے ایک دن ہم لوگوں کو نماز پڑھائی، نماز جب ختم ہوچکی تو ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’اے لوگو! رکوع، سجدہ، قیام اور انصراف میں سبقت (پہل) نہ کرو، میں تم کو اپنی پشت کی طرف سے ایسا ہی دیکھتا ہوں، جس طرح سے سامنے سے‘‘۔ 1
اس تاکید کی انتہا ہے کہ حالتِ نماز میں بھی مقتدیوں کی چوک سے غافل نہیں رہتے، اور پھر ان پر اس راز کو منکشف فرماکر حقوقِ نماز اور فرائضِ اقتدا کی تاکید فرماتے ہیں، کیوں کہ بغیر کسی شرعی رمز کے یہ سب کچھ تاکیدیں ہو رہی ہیں۔ نبی کی نگاہ سے بڑھ کر دوربین انسانوں میں اور کس کی نگاہ ہوسکتی ہے؟ اور بالخصوص خاتم النبیین ﷺ کی، بس یہی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اس شرعی اقتدا میں بے انتہا دینی اور دنیوی فائدے ہیں۔
امام پر سبقت اور اس کی ممانعت: