بلاشبہ ہر مسلمان پر اپنی ذمہ داری کے علاوہ دوسرے مسلمانوں کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ اس امتِ مرحومہ کا طغرائے امتیاز ہی یہ بیان کیا ہے کہ ہر بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور ہر ناپسندیدہ کام سے باز رکھنے کی تلقین کرتے ہیں:
{کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ}۔2
تم بہترین اُمت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کیے گئے ہو، کہ تم نیک کاموں کا حکم کرو اور برے کاموں سے روکو۔
صحابۂ کرام ؓ کی پوری زندگی اس کا زندہ ثبوت ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ جب واقف کار کسی غلط روی اور ناجائز اُمور پر چشم پوشی کرتا ہے تو وہ غلط روی اور ناجائز اُمور وبا کی طرح پھیل پڑتے ہیں اور اس کا ضرر عام ہو جاتا ہے، جس میں بکثرت لوگ مبتلا ہونے لگتے ہیں۔
پھر یہ مسئلہ اپنی جگہ مسلّم ہے کہ اس کا مواخذہ ہر ایک باخبر سے ہوگا، اس نے دیکھ کر بھی اصلاح کی کوشش کیوں نہیں کی، خاموشی کو کیوں راہ دی، یہ ذمہ داری صرف اصطلاحی عالم پر ہی نہیں عائد ہوتی ہے، بلکہ جو مسلمان جتنا بھی جانتا ہے اس پر اسی قدر ذمہ داری آتی ہے۔ ابتدائے اسلام میں دین کی تبلیغ صحابۂ کرام ؓ نے اسی جذبہ کے احساس کے ساتھ کی۔ ضرورت ہے کہ یہ سنت پھر زندہ کی جائے اور وہ بروئے کار لائی جائے، عوام کی نماز میں جو خامی چلی آرہی ہے اُسے ان پر ظاہر کیا جائے اور اس کی شرعی اصلاح کی جائے۔ امام غزالی ؒ نے اس مسئلے پر قدرے بسط وتفصیل سے (احیاء العلوم میں) بحث کی ہے، امام احمد بن حنبل ؒ نے بھی ’’کتاب الصّلاۃ‘‘ میں اس مسئلے کو کھول کر لکھا ہے۔
جماعت کی ظاہری ہیئت:
مختصر یہ کہ امام کی اقتدا بہرنوع کامل ہونی چاہیے اور پوری ذمہ داری کے ساتھ ہونی چاہیے۔ ہر مقتدی پر امام کی متابعت اس حد تک ضروری ہے کہ وہ اس سے سرِ مو تجاوز نہیں کرسکتا، اسی وجہ سے یہ حکم ہے کہ مقتدی جب دو یا اس سے زیادہ ہوں، تو امام کو آگے بڑھا دیں اور خود پیچھے ایک سیدھ میں کھڑے ہو جائیں اور اس طرح کہ شانہ سے شانہ ملا ہوا ہو، نگاہیں سجدہ گاہ پر جمی ہوئی ہوں، سب کے سب ایک طرح ہاتھ باندھے ہوں، سب کا رُخ قبلہ کی جانب ہو، صفیں سیدھی اور