جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام جس شعبہ کا کفیل اور ضامن قرار دیا گیا ہے، وہ آپ کی نظر میں بہت اہم ہے، اور اسی اہمیت کے پیشِ نظر آپ نے اس کے لیے رشد وہدایت کی دعا فرمائی ہے۔ امام احمد ؒ بابِ امامت کی احادیث کے مدِنظر فیصلہ فرماتے ہیں:
ومن الحق الواجب علی المسلمین أن یقدموا أخیارہم وأہل الدین، الأفضل منہم أہل العلم بااللّٰہ الذین یخافون اللّٰہ۔ (کتاب الصلاۃ وما یلزمہا)
مسلمانوں پر واجب ہے کہ امام ان کو بنائیں جو ان کے سب سے بہتر اور دین دار ہوں، اور افضل ترین وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کا علم ویقین رکھتے ہیں اور اس کی خشیت سے ان کا سینہ معمور رہتا ہے۔
جلیل القدر محدّث اور ایک امام کے الفاظ بار بار پڑھیئے، ان سے کتنی اہمیت ٹپکتی ہے۔ امام ؒ نماز کی اہمیت اور اس کی حیثیت کا کتنے بلند پیرایہ میں تذکرہ فرماتے ہیں اور قوم پر کس قدر اس کی ذمہ داری عائد کرتے ہیں، کوئی بات تو ہے جو اس شدت پر ابھار رہی ہے۔
پھر اس کے بعد فوراً فرماتے ہیں:
جاء الحدیث: إذا أم بالقوم رجل، وخلفہ من ہو أفضل منہ، لم یزالوا في سفال۔ (کتاب الصلاۃ وما یلزمہا)
حدیث میں ہے کہ جب قوم کی امامت ایک ادنیٰ شخص کرتا ہے اور اس کے پیچھے اس سے افضل موجود ہوتا ہے، تو ایسی قوم ہمیشہ پستی میں رہتی ہے۔
خود امام پر ذمہ داری:
یہی نہیں کہ ایسی قوم جو اپنے افضل کوچھوڑ کر ادنیٰ کو اپنا امام اور پیشوا بناتی ہے، ہمیشہ پستی میں رہتی ہے، بلکہ پھر ذلت وخواری بھی اس کے لیے لازمی ہے۔ خود امام پر یہ ذمہ داری ہے کہ قوم اُسے کسی شرعی امرِ مذموم کی وجہ سے امامت کے لیے قبول نہیں کرتی تو اسے امامت سے اجتناب کرنا چاہیے، کیوں کہ ایسے شخص کی نماز کی قبولیت میں شبہ ہے، بلکہ حدیث کا فیصلہ ہے:
ثَلَاثَۃٌ لَایُقْبَلُ مِنْہُمْ صَلَاتُہُمْ: مَنْ تَقَدَّم قَوْمًا وَہُمْ لَہُ کَارِہُوْنَ، وَمَنْ أَتَی الصَّلَاۃَ دِبَارًا - وَالدِّبَارُ أَنْ یَأْتِیَہَا بَعْدَ أَنْ تَفُوْتَہُ - وَرَجُلٌ