نیتِ فاسد سے بنائی جاتی ہے کہ نام ونمود اور عزت حاصل ہو، اللہ کے یہاں نہیں دنیا والوں میں، اس کی مسجد اور خود بانی کا کیا حال ہوگا؟ ایسی مسجد جب مسجدِ ضرار کے درجے میں آنے کے لائق ہو جائے گی، تو اس کے بانی کس درجے میں آجائیں گے؟ بار بار سوچیے، اللہ ہر مسلمان کو اس عذاب سے بچائے۔
بطورِ ریا مسلمان کی تعمیر کردہ مسجد:
اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اس طرح کی مسجد ہر پہلو سے مسجدِ ضرار کے حکم میں ہوجاتی ہے، بلکہ یہ صرف انتفائے ثواب، نیتِ فاسدہ اور فقدانِ خلوص میں ہے، کیوں کہ مسجدِ ضرار اور آج کل کی مسجد جو بطورِ ریا بنائی جائے، دونوں میں فرق ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ مسجدِ ضرار میں مسجد کی نیت سرے ہی سے نہ تھی، بلکہ محض تلبیس اور فریب مقصد تھا، جس کا قرآن نے اعلان کیا، اس کو مختصر لفظوں میں دھوکہ کی ٹٹی کہہ سکتے ہیں۔ مگر مسلمان جو مسجد بناتا ہے اس کی نیت ہر حال میں مسجد کی ہی ہوتی ہے، صرف اس کی نیت میں ریا، نام ونمود کی آمیزش ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے ثواب سے محرومی ہوگی۔
غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ مسجدِ ضرار میں چار چیزیں تھیں جن کی وجہ سے یہ مسجدیت سے نکل گئی: اول: یہ کہ اسے منافقین نے اپنی اغراضِ فاسدہ کی تکمیل کا ذریعہ اور مسلمانوں کی
ضرر رسانی کا حیلہ بنایا تھا، جس کو لفظ {ضِرَار} بتلا رہا ہے۔ دوم: یہ کہ اس کی آڑ میں کفر کی تقویت مقصود تھی اور اسلام کا ضعف واضمحلال، جیسا کہ لفظ {کُفْرًا} سے ظاہر ہے۔ سوم: یہ کہ مسلمانوں کی باہمی اخوت ومحبت اور ان کی یکجائی پامال کرکے تفرقہ، اختلاف اور عداوت پیدا کرنا ان کی خواہش تھی، جس پر لفظ {تَفْرِیْقًا بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْن} شاہد ہے۔ چہارم: یہ کہ منافقین نے اس مسجدِ ضرار کو دشمنِ خدا اور رسول کی روپوشی اور گھات کے لیے تیار کیا تھا، جس کا نام مفسرین1 نے ابو عامر خزاعی نصرانی بتایا ہے، اس کی طرف اشارہ ہے {لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ}۔
یہ بات ہر شخص کی سمجھ میں آنے کی ہے کہ مسلمان جو بھی مسجد بناتا ہے، اس کا مقصد ان میں سے کچھ نہیں ہوتا ہے، اس لیے وہ ظاہری احکام میں مسجد ہے، گو عنداللہ مقبول نہ ہو۔ مسجدیت اور مقبولیت میں تلازم نہیں، نہ ایک جانب سے، نہ دونوں جانب سے، واللہ اعلم۔2 باقی اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ہر مسلمان کو ایسی بات سے پرہیز لازم ہے جس سے اس