چھوڑ دیے گئے۔ وہ مسجد سے نکل کر قریب ہی ایک باغ میں گئے، وہاں غسل کیا اور مشرف باسلام ہوئے۔3
اسلام میں جیل خانہ:
مسجد سے یہ کام صدیقِ اکبر ؓ کے عہد تک لیا گیا، فاروقِ اعظم کے دورِ خلافت میں جیل کے لیے چار ہزار دراہم میں ایک مکان خریدا گیا۔ اور بعض کہتے ہیں: باضابطہ اس کی بنیاد حضرت علی ؓ کے زمانۂ خلافت میں پڑی۔4
مشرکین کا دخولِ مسجد:
ثمامہ بن اثال ؓ کے واقعے سے معلوم ہوا کہ مسجد میں کافر کا داخل ہونا جائز ہے، اگر مشرک وکافر کا داخلہ مسجد میں ناجائز ہوتا تو یہ واقعہ کیوں کر ہوتا، بلکہ یہ بھی ایک تاریخی بات ہے کہ آپ کے عہدِ مبارک میں یہود ونصاریٰ عام طور سے مسجد ہی میں اترتے اور آپ ﷺ
سے ملاقات کرتے۔ حافظ ابنِ قیم ؒ نے لکھا ہے کہ آپ نے وفدِ ثقیف کو مسجد ہی میں اتارا، اور ان کے لیے خیمہ نصب کیا، تاکہ وہ قرآنِ پاک سن سکیں اور مسلمانوں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ سکیں، اس واقعے کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
ومنہا جواز إنزال المشرک في المسجد۔ (زاد المعاد: ۲/۲۵)
اس واقعے سے مسجد میں کافر ومشرک کا اتارنا جائز ثابت ہوا۔
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒ نے اس سے بھی واضح لکھا ہے، فرماتے ہیں:
امام اعظم ؓ کا قول ہے کہ ہر ایک مسجد میں کافر ومشرک کا دخول جائز ہے، کیوں کہ آں حضرت ﷺ اپنے زمانۂ سعادت نشان میں مہمانوں کو گو وہ کافر ہوتے، مسجد ہی میں اتارتے، جیسا کہ وفدِ ثقیف اور دوسرے وفود کو آپ نے مسجد میں ٹھہرایا۔ تواتر سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ کی ملاقات کو یہود ونصاریٰ اور مشرکین مسجد میں آتے اور پروانہ حاصل کیے بغیر بیٹھتے، اور ثمامہ بن اثال ؓ کو حالتِ کفر میں مسجد کے ستون سے بندھوایا گیا تھا جس کا کوئی نسخ وارد نہیں ہے۔1