درجاتِ مساجد:
اوپر کی حدیث سے اتنی بات ضرور معلوم ہوئی کہ مسجدوں کے درجے آپس میں متفاوت ہیں اور یہ درست بھی ہے، خود ان تین مسجدوں کے مراتب بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ چناں چہ ’’ابنِ ماجہ شریف‘‘ کی ایک حدیث میں مذکور ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: ’’فرض نماز جو گھر میں بغیر عذرِ شرعی پڑھی جائے، ایک ہی نماز کے برابر ہے، اور مسجدِ محلہ میں باجماعت پڑھی جائے تو پچیس گونہ اس کا ثواب بڑھا ہوا ہے، اور جامع مسجد میں (جماعت کی) نماز پانچ سو نمازوں کے برابر ہے، اور مسجدِ اقصیٰ میں جو نماز پڑھی جائے وہ پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے، اور جو نماز میری مسجد (نبوی) میں پڑھی جائے وہ اس سے پچاس ہزار درجہ بڑھی ہوئی ہے، اور مسجدِ حرام کی نماز ایک لاکھ درجہ زیادہ رکھتی ہے‘‘۔2
فقہائے کرام نے دوسری حدیثوں کے پیشِ نظر مسجدِ اقصیٰ کے بعد مسجدِ قبا کا درجہ بتایا ہے، پھر جامع مسجد کا، پھر محلہ کی مسجد کا، پھر شارعِ عام کی مسجد کا، لیکن پنج وقتہ کے لیے محلہ کی مسجد کو جامع مسجد پر فضیلت حاصل ہے۔ البتہ جمعہ کی نماز جامع مسجد ہی میں افضل
ہے،1 کیوں کہ سلف صالحین اور صحابۂ کرام ؓ کا تعامل آپ کے بعد یہی رہا کہ پنج وقتی نماز اپنے محلے کی مسجد میں پڑھتے رہے اور آج بھی صالحین کا یہی تعامل ہے۔
ایک محلے میں چند مسجدیں ہوں تو سب سے زیادہ حق اس مسجد کا ہے، جس میں جماعت بڑی ہوتی ہو، پھر جو قریب تر ہو، پھر جو قدیم تر ہو۔ اور ہر طرح مساوی ہوں تو جس مسجد میں قلبی رحجان پایا جائے۔ اور اگر نمازی عالمِ دین ہے جس کی ذات سے لوگوں کے زیادہ سے زیادہ آنے کی توقع کی جاتی ہے، تو اس کو اس مسجد میں نماز پڑھنی چاہیے جس میں نمازیوں کی آمد کم ہے، تاکہ اس کی وجہ سے جماعت میں اضافہ ہوسکے اور مسجد آباد رہے۔2
مگر طالب علموں کو یہ رعایت ہے کہ وہ جاکر اپنے استاذ کی مسجد میں نماز پڑھیں، تاکہ استاذ سے بھی مستفید ہوسکیں۔ ایک بات اور قابلِ ذکر ہے کہ محلے کی مسجدوں میں اس مسجد کو خاص شرف حاصل ہے، جس کا امام باعمل اور متقی ہو۔3
تفاوتِ درجات کا راز: