میں مانع ہے، یا اتنی بڑی آبادی ہے جہاں ایک مسجد میں نہ گنجایش ہوسکتی ہے اور نہ آنا آسان ہے، تو دو جگہ نمازِ جمعہ پڑھی جاسکتی ہے۔ باقی آج کل جیسا تعددِ جمعہ مروّج ہے وہ کسی درجہ میں بھی اصولِ شریعت کے قریب نہیں، مروجہ تعددِ جمعہ کے جواز کی بحث میں دخل انداز ہونے کی چاہے گنجایش نہ ہو، مگر اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ یہ طریقہ اقامتِ جمعہ کی بنیادی منشا اور اس کی روح کے خلاف ہے۔
اس مسئلے میں کسی کا اختلاف نہیں کہ جمعہ کے دن معذورین (مسافر، مریض وغیرہ) کا مصر میں ظہر کی نماز باجماعت ادا کرنا مکروہ ہے، اس کی وجہ علما نے جو لکھی ہے وہ یہ ہے کہ جماعتِ جمعہ میں اختلال کا اندیشہ ہے۔ مولانا بحر العلوم جو خود تعددِ جمعہ کے قائل ہیں، مگر یہ بھی معذورین کی جماعت ظہر کو غیر دیہات میں مکروہ لکھتے ہیں، اور وجہ کراہت جو بتاتے ہیں وہ یہ ہے:
لأن الجمعۃ جامعۃ للجماعات في المصر، ولو صلی المعذورون بالجماعۃ عسی أن یدخل غیرہم، فیختل جماعۃ الجمعۃ۔ (ارکان: ۱۱۸)
نمازِ جمعہ ایک شہر کی مختلف جماعتوں کو یک جا کرنے والی ہے، اور معذورین باجماعت نماز پڑھیں گے تو ممکن ہے غیر معذور بھی ان کے شریک ہو جائیں، پس اس طرح جماعتِ جمعہ میں اختلال پیدا ہو جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ جب جماعتِجمعہ کا اس قدر لحاظ ہے تو پھر خود جمعہ کی جماعت کو ٹکڑے ٹکڑے کردینا کیوں کر قرینِ اصول ہوسکتا ہے۔
قیامت کی یاد:
جب اتنی بات سمجھ میں آگئی تو اب جامع مسجدوں کے نظام پر غور فرمائیں، کہ کیوں کر ہفتہ میں ایک مخصوص دن، ایک وقت میں ہر ہر جگہ کے مسلمان اپنی اپنی جامع مسجد میں یک جا ہوں گے، اور اللہ تعالیٰ کی بندگی پوری شان وشکوہ کے ساتھ ادا کریں گے، اور پھر اس اجتماع کو کیا حیثیت حاصل ہوگی۔
علامہ ابن القیم ؒ اجتماعِ جمعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
بلاشبہ جمعہ لوگوں کے جمع ہونے اور ان کو مبدا ومعاد یاد دلانے کا دن ہے، اللہ تعالیٰ نے ہر امت کے لیے ہفتہ میں ایک دن بنایا ہے، جس میں وہ عبادت کے لیے ہر کام سے علیحدہ ہوتے ہیں، اور جمع ہو کر مبدا ومعاد اور ثواب وعقاب کو یاد کرتے ہیں، اور اس اجتماع سے اس بڑے