مسجدوں کی تزئین
تعمیرِ مسجد کا اجر بیان ہوچکا، اب اس پر روشنی ڈالنی ضروری ہے کہ تعمیری خصائص کیا ہیں، یعنی مسجدیں کیسی بنائی جائیں۔ کیوں کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ رسم عام طور پر پھیلتی جاری ہے کہ مسجد کی تعمیر کے ساتھ لوگ یہ بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اس میں جھاڑ وفانوس ہوں، رنگ وروپ میں ممتاز ہوں، اور گل وبوٹے ضرور ہوں اور زیادہ سے زیادہ ہوں۔
مسلمانوں کی اقتصادی حالت کے پیشِ نظر بھی اس مسئلے پر بحث ضروری ہے، ورنہ کہیں ایسا نہ ہوکہ آئندہ جاکر جو سلسلہ چل رہا ہے، وہ بھی رک جائے، اور مسلمان بعض ان چیزوں کو ضروری تصور کرلیں جو ہرگز ضروری نہیں ہیں۔
تعمیرِ مسجد میں سادگی:
ہم پہلے مسجدِ نبوی کے سلسلے میں اشارہ کر آئے ہیں کہ مسجد ایسی سادہ ہونی چاہیے جسے تمام مسلمان با آسانی بنا سکیں، پھر آپ وہاں مسجدِ نبوی کی ہیئت پڑھ چکے ہیں کہ جو مسجد آپ نے بنائی تھی، وہ بالکل سادہ تھی۔ بخاری ؒ نے عبداللہ بن عمر ؓ سے ایک روایت نقل کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
مسجدِ نبوی عہدِ رسالت میں کچی اینٹ سے بنائی گئی تھی جس کی چھت برگِ کھجور کی اور ستون درختِ خرما کے تھے، ابوبکر صدیق ؓ نے اس میں کوئی زیادتی نہ کی، اپنے حال پر رہنے دیا، فاروقِ اعظم ؓ نے زیادتی تو کی، لیکن سابق بنیاد پر بنائی، اور وہی کچی اینٹ کی دیوار، برگِ کھجور کی چھت، صرف ستون لکڑی کے دیے۔ پھر حضرت عثمان ؓ نے اس میں کافی زیادتی کی، دیوار منقش پتھر اور سمنٹ سے، ستون بھی منقش پتھروں ہی کے اور چھت ساج کی لکڑیوں سے تیار ہوئی۔1
تعمیری خصائص کا جہاں تک تعلق ہے یہ بات صاف ہے کہ دورِ فاروقی تک وہی سادگی رہی جو آپ ﷺ کے زمانے میں تھی، حالانکہ آمدنی کے لحاظ سے فاروق اعظم ؓ کا زمانہ ممتاز کہا جاسکتا ہے، فتوحات کی کثرت تھی، روم وفارس کے خزانے لدے چلے آرہے تھے۔ آپ نے مختلف شعبوں کو ترقی دی اور بہت سے نئے شعبے پیدا کیے، مگر اس طرف آپ نے کوئی توجہ نہیں کی، یہی نہیں، بلکہ سختی سے اس تزئین کو روکا، آپ کا فرمان تھا کہ رنگ سازی کر کے فتنے کا سامان نہ فراہم کیا