میدانِ جہاد وقتال میں بھی شریعت نے جماعت ٹوٹنے نہیں دی اور اس نازک موقع پر خود اللہ تعالیٰ نے جبریل ؑ کے ذریعے آپ کی رہنمائی فرمائی اور حکمتِ عملی بتاکر شکستِ جماعت سے بچالیا، جو اس بات کی دلیل ہے کہ پرور دگارِ عالم کو جماعت کی نماز محبوب ہے۔
نظمِ جماعت پر اجماعِ صحابہ ؓ :
جماعت کی نماز کی اسی عظمتِ شان کے پیشِ نظر حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے تھے کہ آدم کے بیٹوں کے کان کے پگھلائے ہوئے سیسہ سے بھر جانا بہتر ہے کہ وہ اذان سنیں اور جماعت کی نماز کے لیے مسجد میں نہ آئیں۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ فرماتے ہیں کہ جو لوگ مؤذن کی آواز سنتے ہیں اور عذرِ شرعی نہ ہوتے ہوئے بھی جماعت کے لیے نہیں نکلتے، ان کی نماز، نماز ہی نہیں ہے۔ حضرت علی ؓ کا بھی یہی کہنا ہے۔3
حضرت مجاہد ؒ کا بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے ایک شخص نے پوچھا: اس شخص کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جو دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات کو تہجد ونوافل پڑھتا ہے، مگر جمعہ اور جماعت میں حاضر نہیں ہوتا؟ آپ نے جواب دیا ’’ہو في النار‘‘ (وہ دوزخی ہے)۔ پھر دوسرے دن اس نے آکر یہی سوال کیا۔ راوی کا بیان ہے: تقریباً ایک مہینہ برابر اس نے ایسا ہی کیا، مگر حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ہمیشہ یہی فرماتے رہے کہ وہ دوزخی ہے۔ 1
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں: جس نے اذان سنی اور پھر بھی اس کو قبول نہیں کیا، حالاں کہ اس کو کوئی عذرِ شرعی بھی نہ تھا، تو ایسے شخص کو خیر نصیب نہیں اور نہ اس کا اسمیں کوئی جذبہ معلوم ہوتا ہے۔2
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا ایک قول پہلے گزر چکا ہے کہ جماعت کی نماز میں وہی شخص نہیں آتا جو کھلا ہوا منافق ہے۔ یہ اور اس طرح کے دوسرے اقوال جو صحابۂ کرام ؓ سے آئے ہیں، وہ درجۂ صحت وشہرت کی حد تک پہنچے ہوئے ہیں، اور ان کی مخالفت میں کسی صحابی سے کوئی بات بھی نہیں آئی ہے کہ تذ بذب کی گنجائش نکل سکے۔ پس ان تمام امور کے مدِ نظر ماننا پڑتا ہے کہ جماعت کی نماز پر صحابۂ کرام ؓ کا اجماع ہے۔3