اطاعت کا مجسمہ بن جائے گا، اور دل نورانی کرنوں سے چمک اُٹھے گا۔
خضوع وخشوع:
اسی کیفیت کا نام اصطلاح میں خشوع وخضوع ہے جو عبادت کی جان اور بندگی کی روح ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
{قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَO الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَO}1
ان مسلمانوں نے یقینا فلاح پائی، جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں۔2
یہ آیت بتاتی ہے کہ خشوع گو صحتِ نماز کی شرط نہیں، مگر قبولیت کی شرط تو بہرحال ہے، چناں چہ بعض مفسرین نے اس کو لکھا ہے۔
خشوع کی حقیقت کیا ہے؟ ابنِ رجب حنبلی ؒ لکھتے ہیں:
أصل الخشوع ہو لین القلب ورقتہ وسکوتہ وخضوعہ وحرقتہ، فإذا خشع القلب تبعہ جمیع الجوارح والأعضاء؛ لأنہا تابعۃ لہٗ۔ (الخشوع في الصلاۃ: ۲)
خشوع کی اصلیت دل کا نرم ہونا اور اس کا پسیجنا ہے، نیز اس کے اطمینان اور جھکاؤ اور سوزش کا نام ہے، قلب جب جھک پڑتا ہے تو سارے اعضا وجوارح اس کی پیروی میں جھک پڑتے ہیں، کیوں کہ یہ سب اس کے تابع ہیں۔
یہ بالکل صحیح ہے کہ اعضا وجوارح قلب کے تابع ہوتے ہیں، گویا اس جسم کی دنیا میں دل کو سردار کی حیثیت حاصل ہے جس کے صلاح وفساد کا اثر بقیہ حصوں کو قبول کرنا ناگزیر ہے، اور جس کی ہر حرکت وسکون کا سایہ ایک ایک عضو پر پڑنا از بس ضروری، جیسا کہ ابھی اوپر حدیثِ نبوی گزری۔ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ خشوع کا پہلا پر توقلب پر پڑتا ہے جس کی طرف حضرت علی ؓ نے ارشاد فرمایا:
الخشوع خشوع القلب۔ (ابن کثیر: ۳/۲۳۷)
خشوع دل کا جھک پڑنا ہے۔
پھر یہ اثر دل سے اعضا وجوارح پر پھیل پڑتا ہے، چناں چہ حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ خشوع دل میں پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے آنکھیں پست ہو جاتی ہیں اور دل جھکاؤ کو قبول کرتا ہے۔3 اسی علت کے پیشِ نظر بعض سلف صالحین