آپ کے فوراً بعد حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے اس فتنہ کو محسوس فرمایا اور ان کو کہنا پڑا کہ رسول اللہ ﷺ اگر عورتوں کی اس جدّت کو دیکھتے تو ان کو مسجد آنے سے روک دیتے:
لو أن رسول اللّٰہ ﷺ رأی ما أحدث النساء، لمنعہن المسجد، کما منعتْ نساء بني إسرائیل۔ (مسلم: ۱/۱۸۳)
جو چیز عورتوں میں پیدا ہوگئی ہے اسے رسول اللہ ﷺ دیکھتے، تو یقینا بنی اسرائیل کی عورتوں کی طرح آپ ان کو مسجد سے روک دیتے۔
یہ حضرت صدیقہ ؓ آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات میں سے ہیں، ان کا یہ کہنا دلیل ہے کہ عہدِ نبوی کے فوراً بعد انقلابِ عظیم عورتوں میں پیدا ہونے لگا، اور عہدِ صحابہ ؓ میں ان کی روک تھام ضروری سمجھی گئی، فقہا اسی طرح کی حدیثوں کے پیشِ نظر کہتے ہیں کہ عورتوں اور خصوصاً جو ان عورتوں کو مسجد نہ جانا چاہیے۔ باقی اجازت والی حدیث؟ تو اس میں ذرہ برابر شبہ نہیں کہ یہ اجازت تو ہے ضرور، مگر حکیمانہ انداز میں۔
إِذَا اسْتَأْذَنَتْ أَحَدَکُمُ امْرَأَتُہُ إِلَی الْمَسْجِدِ فَلَا یَمْنَعْہَا۔ (مسلم: ۱/۱۸۳)
تم میں سے کسی کی عورت مسجد جانے کی اجازت طلب کرے، تو اس کو منع نہ کرو۔
حدیث میں جہاں بھی ان کو مسجد کی اجازت ملی ہے اسی انداز میں، یہ کہیں نہیں ہے کہ ان کو بھی مسجد کی حاضری کے لیے مجبور کرو، بلکہ عموماً اجازت دی ہے تو اسی طرح کہ جب وہ تقاضا کریں تو ان کو روکا نہ جائے۔ چوں کہ یہ حق ایک شرعی حق بن جاتا ہے، اس لیے رحمتِ عالم ﷺ نے زبردستی ان کو روکنا نہیں چاہا، مگر اپنے حکیمانہ انداز میں ان کو مشورہ یہی دیا ہے کہ نہ نکلیں تو اچھا ہے، بلکہ اس کی ترغیب بھی دی ہے۔ انھوں نے بھی متعدد قیدیں لگادی ہیں اور جن کا لگانا ضروری بھی ہے۔ علامہ نووی لکھتے ہیں:
عورتوں کو مسجد سے روکا نہ جائے گا، بشرط یہ کہ وہ ان قیود وشرائط کی پوری پوری پابندی کریں جو احادیث ہی سے ماخوذ ہیں۔ مثلاً: کپڑوں میں خوشبو نہ لگائیں، بن سنورکر نہ نکلیں، ایسی پازیب جس سے آواز پیدا ہو نہ پہنیں، مردوں سے اختلاط نہ ہونے پائے، جوان یا ایسی نہ ہوں جس سے کسی طرح کے فتنہ کااندیشہ ہو، اور ہر طرح کے مفسدہ سے بے خوف ہوں۔1
اس سلسلے میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی رائے بھی قابلِ ذکر ہے، فرماتے ہیں:
جماعت کے لیے عورتوں کا مسجد آنا اس زمانے میں مکروہ ہے، کیوں کہ فساد وفتنہ کا خطرہ ہے۔ عہدِ نبوی میں نکلنے کی اجازت شریعت کی تعلیم کے حصول کی غرض سے تھی جو غرض اب باقی نہیں ہے، اس لیے کہ احکامِ شریعت آج کل عام طور پر شائع ہیں، اور عورتوں کا پردہ بہرحال اولی ہی ہے۔1
فصلِ مقدمات: