مسجدوں کے مرکزی گھر ہونے کا ثبوت قرآن سے:
قرآنِ پاک اور احادیثِ نبوی کے الفاظ واضح طور پر بتاتے ہیں کہ نمازوں کی ادائیگی باجماعت مسجدوں ہی میں مطلوب ہے، اور شریعتِ مطہرہ میں ان مسجدوں کو مرکزی گھر ہونے کی حیثیت حاصل ہے۔
مندرجہ ذیل آیتوں اور حدیثوں میں غور فرمائیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَاَقِیْمُوْا وُجُوْہَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ}1
اور سیدھا کرو اپنے چہروں کو ہر مسجد کے پاس، اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طور پر کرو کہ عبادت اسی کے لیے خالص رہے۔
اس آیت کے تحت صاحبِ ’’التفسیرات الأحمدیۃ‘‘ تحریر فرماتے ہیں:
ففي الآیۃ دلیل علی فرضیۃ القیام في الصلاۃ، وأدائہا في المسجد، وعدم اختصاص بمسجدہا۔
اس آیت سے نماز میں قیام کی فرضیت ثابت ہوتی ہے اور یہ کہ وہ مسجد میں ادا کی جائے، ہاں! وہ کسی خاص مسجد کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔
ابوبکر جصاص لکھتے ہیں:
والثاني: فعل الصلاۃ في المسجد۔ وذلک یدل علی وجوب فعل المکتوبات جماعۃ؛ لأن المساجد بُنیتْ للجماعات۔2
دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ نماز مسجد میں پڑھی جائے جس سے پتہ چلا کہ فرض نماز باجماعت واجب ہے، کیوں کہ مسجدیں قیامِ جماعت کے لیے بنائی گئی ہیں۔
ان سے نمایاں طور پر ثابت ہوا کہ فرض نماز باجماعت مسجد میں ہونی چاہیے، کیوں کہ تعمیرِ مساجد کا مقصد یہی ہے۔ دوسری آیت لب ولہجہ کو سامنے رکھتے ہوئے ملاحظہ ہو:
{فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗلا یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِO رِجَالٌلا لَّا تُلْہِیْہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَآئِ الزَّکٰوۃِ}۔3
ان گھروں میں جن کی نسبت اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان کی تعظیم کی جائے اور ان میں اللہ کا نام لیا جائے، ان (مسجدوں) میں صبح وشام ایسے لوگ (نمازوں میں) اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں جن کو اللہ کی یاد سے اور (بالخصوص) نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے سے نہ خرید غفلت میں ڈالنے پاتی ہے اور نہ فروخت۔
اس آیت کا طرزِ بیان بھی بتلاتا ہے کہ مسجدوں کا یہ واجبی حق ہے کہ اللہ کی دوسری عبادت اور نماز انہی میں ادا کی جائے، کیوں کہ بیوت سے مراد مسجد ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے دیکھا کہ جوں ہی فرض نماز