حدیث میں مسواک کی تاکید اور اس کی فضیلت جو بیان کی گئی ہے اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کے دربار میں حاضری پاکیزگی اور نفاست کے ساتھ ہوتا کہ مناجات اور سرگوشی میں پورا پورا ادب ملحوظ رہے۔ آں حضرت ﷺ نے اپنی زندگی میں منہ کی صفائی کا بڑا اہتمام فرمایا، خود تو یہ حال تھا کہ کوئی وضو بغیر مسواک کے نہیں ہوتا تھا، یوں بھی آپ بکثرت مسواک کرتے۔ آپ نے اپنی امت کو بھی اس کی بڑی ترغیب فرمائی ہے، ایک دفعہ فرمایا کہ ’’اگر میری امت پر شاق نہ ہوتا تو میں یہ حکم دیتا کہ ہر نماز کے وقت مسواک کریں‘‘۔1
ایک دوسری حدیث میں ہے: ’’مسواک سے منہ کی صفائی ہے اور اللہ تعالیٰ کی خوش نودی‘‘۔2 اسی صفائی کا نتیجہ ہے کہ آپ نے ایسی چیز کھا کر مسجد جانے سے روکا ہے جس کی بو جلد ختم نہیں ہوتی، جیسے: کچی پیاز، لہسن، مولی اور اسی طرح کی دوسری چیزیں۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا:
مَنْ أَکَلَ ثَوْمًا أَوْ بَصَلًا فَلْیَعْتَزِلْنَا، أَوْ فَلْیِعْتَزِلْ مَسْجِدَنَا۔ (ریاض الصالحین للنووي: ۲۵۰)
’’جو بھی لہسن، پیاز کھائے اس کو چاہیے کہ ہماری مسجد سے علیحدہ رہے‘‘۔
دوسری روایت اس سے واضح ہے جس میں علت بھی بیان کی گئی ہے:
مَنْ أَکَلَ مِنْ ہَذِہِ الشَّجَرَۃِ فَلَا یَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا؛ فَإِنَّ الْمَلَائِکَۃَ تَتَأَذَّی مِمَّا یَتَأَذَّی مِنْہُ الإِنْسُ۔ (المشکاۃ: ۱/۶۹)
جو اس درخت (پیاز) سے کھائے ہماری مسجد کے قریب نہ آئے، اس لیے کہ فرشتوں کو اس چیز سے اذیت ہوتی ہے جس سے انسان کو اذیت ہوتی ہے۔
مٹی کا تیل وغیرہ جلانا:
اسی علتِ اذیت کی وجہ سے مسجد میں مٹی کا (کراسن) تیل جلانا نہ چاہیے، کہ اس کی بو بھی اذیت دیتی ہے، اسی طرح مسجد میں بیڑی، سگرٹ اور حقہ پی کر بغیر منہ صاف کیے داخل نہ ہونا چاہیے۔ اس سے یہ بات خود سمجھ میں آتی ہے کہ جب بدبو منہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے تو مسجد میں بیڑی سگرٹ پینا کتنا بڑا جرم ہوگا۔ ’’وسیلۂ احمدیہ شرح طریقۂ محمدیہ‘‘ میں ہے:
قال الفقہاء: کل من وجد فیہ رائحۃ کریہۃ یتأذی بہ الإنسان، یلزم إخراجہ، ولو یجر من یدہ أو رجلَیہ دون لحیتہ وشعر رأسہ۔