جیسا کہ عرض کیا گیا صحابہ کرام ؓ کا جوشِ عمل جماعت کے باب میں جو تھا، وہ اپنی جگہ تفصیل سے ان شاء اللہ آئے گا، مگر یہاں صرف ایک واقعہ پیش کیا جاتا ہے جس سے عہدِ نبوی میں حاضریٔ مسجد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، کہ اس کو کس قدر اہمیت حاصل تھی۔ حضرت عتاب بن اسید ؓ مکہ کے گورنر تھے، آں حضرت ﷺ کی وفات کی خبر جب مکہ پہنچی تو یہ پہلے مارے خوف کے چھپ گئے، اس وقت حضرت سہیل ؓ بن عمرو نے خطبہ دیا۔ اُن کو جب یہ معلوم ہوگیا کہ اہلِ مکہ اسلام پر علیٰ حالہ قائم ہیں، تو حضرت عتاب ؓ کو نکالا اور انھوں نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
یا أہل مکۃ، واللّٰہ، لا یبلغني أن أحدا منکم تخلف عن الصلاۃ في المسجد في الجماعۃ إلا ضربت عنقہ۔ (کتاب الصلاۃ لابن القیم)
اے اہلِ مکہ! خدا کی قسم! اگر مجھے یہ خبر پہنچی کہ تم میں کا کوئی قصداً جماعت کی نماز کے لیے مسجد نہیں آیا، تو میں اس کی گردن مار دوں گا۔
یہ سن کر اہلِ مکہ اُن کے بہت ممنون ہوئے اور اُن کی اس تقریر کو بہت سراہا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صحابۂ کرام ؓ کی دوربین نگاہ میں مسجد کی حاضری کو کتنی اہمیت حاصل ہے۔
نماز مسجد میں ادا کرنا شعارِ دین ہے:
اس سلسلے میں اب زیادہ طول دینا مناسب نہ ہوگا، مگر یہ ذکر فائدے سے خالی نہیں کہ علما نے انہی وجوہ کی بنا پر مسجد کے اندر جماعت کی نماز کو شعارِ دین قرار دیا ہے۔ حافظ ابنِ قیم ؒ کے الفاظ ہیں:
فإن الصلاۃ في المسجد من أکبر شعائر الدین وعلاماتہ۔ (کتاب الصلاۃ: ۱۰۵)
بلاشبہ مسجد میں جمع ہو کر نماز ادا کرنا دین کا ایک بڑا شعار اور اس کی علامت ہے۔
نظمِ جماعت اور اس کی اہمیت:
مسجد کے اندر نمازِ جماعت کی جو حیثیت ہے اور مسجد کو نماز سے جو گہرا تعلق ہے، اس کے ثابت ہو جانے کے بعد بتلانا ہے