إِنَّ طُوْلَ صَلَاۃِ الرَّجُلِ وَقِصَرَ خُطْبَتِہِ مُنْبِئَۃٌ مِنْ فَقْہِہِ، فَأَطِیْلُوا الصَّلَاۃَ، وَاقْصِروا الْخُطْبَۃَ۔ وَإِنَّ مِنَ الْبَیَانِ سِحْرًا۔ (مسلم: کتاب الجمعۃ: ۱/۲۸۶)
مردِ مومن کی لمبی نماز اور مختصر خطبہ اس کے فقیہ ہونے کی علامت ہے، پس نماز لمبی کرو اور خطبہ مختصر، اور بلاشبہ بعض بیان جادو ہے۔
اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ضرورت کے وقت بھی اختصار سے کام لیا جائے جس سے ضرورت پوری نہ ہوسکے، بلکہ امام کو ضرورت کے وقت اس کا اختیار ہے۔ خود آں حضرت ﷺ کا دستور بھی یہی تھا، کبھی خطبہ کو طول دیتے اور کبھی اختصار سے کام لیتے جیسی ضرورت محسوس فرماتے۔ علامہ ابن القیم لکھتے ہیں:
وکان یقصر خطبتہ أحیانا، ویطیلہا أحیانا بحسبِ حاجۃ الناس۔ (زاد المعاد: ۱/۴۷)
جیسی لوگوں کی ضرورت ہوتی اسی کے مطابق آپ ﷺ خطبہ دیتے، کبھی مختصر اور کبھی لمبا۔
امام کی توجہ:
خطبہ میں اس کا بھی لحاظ رہے کہ امام خطبہ دیتے ہوئے کھڑا رہے، اور اس کا رُخ قوم کی طرف ہو، تاکہ امام کی طرف قوم کا رجحان باقی رہے اور اس کی باتیں قوم کو متأثر کرسکیں۔ سید الکونین ﷺ کا یہی معمول تھا:
وکان یخطب قائما، وإذا صعدَ المنبر أقبل بوجہہ علی الناس۔ (زاد المعاد: ۱/۴۷)
آں حضرت ﷺ کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے اور منبر پر لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے۔
اس طرف اشارہ گزر چکا ہے کہ امام (خطیب) محض اپنے جسم ہی سے قوم کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، بلکہ اس کو دلی اور روحانی توجہ بھی قوم پر رکھنی چاہیے۔
قبولیتِ دعا کی گھڑی:
جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی ہے جس میں دعائیں خصوصیت سے مقبولِ بارگاہ ہوتی ہیں، حدیث کے الفاظ تو بتاتے ہیں کہ