گر ہوتا ہے، اس لیے کوئی اپنے سامنے نہ تھوکے، نماز میں تھوکنے کی ایسی ہی مجبوری لاحق ہو تو بائیں جانب یا پاؤں کے نیچے ڈال سکتا ہے۔ پھر آپ نے مل کر کے اسے بتایا، اپنی چادر مبارک کے ایک کنارے کو لیا، اس پر تھوکا اور مل دیا، پھر فرمایا: ’’ایسا ہی کرے‘‘۔1
مسجد میں تھوکنا گناہ ہے:
ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں:
اَلْبُزَاقُ خَطِیْئَۃٌ، وَکَفَّارَتُہَا دَفْنُہَا۔ (البخاري: ۱/۵۹)
تھوکنا گناہ اور اس کا کفارہ اس کادفن کرنا ہے۔
یعنی مسجد میں تھوکنا گناہ ہے، کسی سے نادانستہ ایسی غلطی ہو ہی جائے تو اس کو چاہیے کہ اس کو دفن کردے۔ نووی ؒ نے لکھا ہے کہ مسجد میں کہیں بھی تھوکا نہیں جاسکتا، بلکہ تھوکنا
گناہ ہے، اور قبلہ کی دیوار کا احترام نسبتاً بڑھا ہوا ہے، اس لیے ادھر تھوکنا اور بھی برا ہے، یہ قبلہ مسجد میں ہو یا کسی اور جگہ، دونوں قابلِ احترام ہیں۔ جس جگہ آدمی نماز پڑھتا ہے وہاں نماز میں قبلہ کی طرف تھوکنے کی ممانعت ہے، إِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ، یُحِبُّ الْجَمَالَ۔ نماز پڑھتے ہوئے منہ میں تھوک آہی جائے تو کپڑے کے کنارہ پر تھوک کر مل دے، کہ اس صورت میں تلویثِ مسجد نہیں ہے۔ مسجد سے باہر اگر کوئی نماز پڑھتا ہو اور پاؤں کے نیچے یا بائیں جانب مجبوری کی حالت میں تھوک دے، تو مضائقہ نہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ مسجد میں تھوکنے کی جرأت نہ کی جائے، نگلنا پڑے تو یہ کرے، مگر تھوکنا مناسب نہیں۔1
مسجد سے گندگی دور کرنا: