ایک بار آپ نے ان لوگوں کو جو تاریکی میں مسجد حاضر ہوتے ہیں، نورِ کامل کی بشارت سنائی:
بَشِّرِ الْمَشَّائِینَ فِي الظُّلَمِ إِلَی الْمَسَاجِدِ بِالنُّوْرِ التَّامِّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ رواہ الترمذي۔ (المشکاۃ: باب المساجد)
’’تاریکی میں مسجد جانے والوں کو نورِ کامل کی بشارت دو، جو قیامت کے دن حاصل ہوگا‘‘۔
مسجد کی حاضری رحمتِ الٰہی کا ذریعہ ہے:
ایک دفعہ آپ نے فرمایا کہ ’’سات شخصوں کو اللہ تعالیٰ اپنے سایہ میں اس دن پناہ دے گا جس دن اس کے سایہ کے سوا کوئی اور سایہ ہی نہ ہوگا، ان سات میں ایک وہ شخص ہوگا کہ وہ جب مسجد سے نکلتا ہے، تو واپسی تک اس کا دھیان اسی طرف لگا رہتا ہے‘‘۔ 1 ایک حدیث ہے کہ ’’جو شخص مسجد میں داخل ہوا وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں ہے، رب العزت اُسے نقصان، خسران وغیرہ سے محفوظ رکھتا ہے‘‘۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’جس شخص کو دیکھو کہ مسجد سے محبت کرتا ہے اور اس کی خدمت کرتا ہے، اس کے مومن ہونے کی شہادت دو‘‘۔2
حدیث میں ’’تعاہد‘‘ کا لفظ آیا ہے، جس کے معنی مسجد کی نگہداشت وخبر گیری کرنا، اس کی محافظت ومرمت کرنا، جھاڑو دینا، نماز پڑھنا، عبادت میں مشغول رہنا، ذکر کرنا، علومِ دینی کا درس دینا ہے۔3
مجاہد فی سبیل اللہ:
ایک دفعہ آپ نے مسجد جانے والوں کے متعلق فرمایا کہ وہ رحمتِ الٰہی میں غوطہ لگانے والے ہیں۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ وہ مجاہد فی سبیل اللہ ہیں۔