کے لیے اذان پکاری گئی، بازار والوں کی ایک جماعت سب چھوڑ چھاڑ مسجد چل کھڑی ہوئی، یہ منظر دیکھ کر آپ نے بے ساختہ فرمایا: انھی لوگوں کے متعلق کتابِ مقدّس کا اعلان ہے:
{رِجَالٌلا لَّا تُلْہِیْہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ}1 الآیۃ
احادیث سے ثبوت:
اس باب میں حدیثیں بکثرت آئی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نمازیں مسجدوں ہی میں ادا کی جائیں۔ ’’مسلم شریف‘‘ کی ایک لمبی حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں جس کے راوی عبداللہ بن مسعود ؓ ہیں:
إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ عَلَّمَنَا سُنَنَ الْہُدَی۔ وَإِنَّ مِنْ سُنَنِ الْہُدَی الصَّلَاۃَ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِيْ یُؤْذَنُ فِیْہِ، وَلَوْ أَنَّکُمْ صَلَّیْتُمْ فِيْ بُیُوْتِکُمْ کَمَا یُصَلِّيْ ہَذَا الْمُتَخَلَّفُ فِي بِیْتِہِ، لَتَرَکْتُمْ سُنَّۃَ نَبِیِّکُمْ، وَلَوْ تَرَکْتُمْ سُنَّۃَ نَبِیِّکُمْ لَضَلَلْتُمْ۔ (۱/۲۳۲)
رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سننِ ہدی کی تعلیم فرمائی۔ اور سننِ ہدیٰ سے ہی یہ ہے کہ نماز اس مسجد میں ادا کی جائے جس میں اذان ہوتی ہو، اگر تم نے اپنے گھر میں نماز پڑھی جیسا کہ یہ منافق اپنے گھر میں نماز پڑھتے ہیں، تو بلاشبہ تم نے اپنے نبی کی سنت ترک کردی اور جس وقت تم نے اپنے نبی کی سنت ترک کردی، یقین کر لو گمراہ ہو چکے ہو۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رحمتِ عالم ﷺ نے فرمایا:
صَلَاۃُ الرَّجُلِ فِي الْجَمَاعَۃِ تُضَعَّفُ عَلَی صَلَاتِہِ فِيْ بَیْتِہٖ وَفِيْ سُوْقِہِ خَمْسًا وَعِشْرِیْنَ ضِعْفًا، وَذَلِکَ أَنَّہٗ إِذَا تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوْئَ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَی الْمَسْجِدِ۔ (البخاري: باب فضل صلاۃ الجماعۃ)
مرد کی جماعت کی نماز اس کی اس نماز سے جو اپنے گھر یا بازار میں پڑھے، پچیس گناہ زیادہ ہے، اور یہ اس لیے کہ جب اچھا وضو کیا اور پھر مسجد کو چلا۔
ثم خرج إلی المسجد کا جملہ واضح دلیل ہے کہ جماعت کی نماز مسجد ہی میں مطلوب ہے۔ چناں چہ اسی سلسلے میں ابنِ حجر لکھتے ہیں:
مقتضاہ أن الصلاۃ في المسجد جماعۃ تزید علی الصلاۃ في البیت وفي السوق جماعۃ وفرادی۔ (فتح الباري: ۲/۹۲)
اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جماعت کی نماز جو مسجد میں پڑھی جائے، وہ ثواب میں اس نماز سے بڑھی ہوئی ہے جو گھر اور بازار میں پڑھی جائے، خواہ باجماعت ہو خواہ تنہا تنہا۔
پھر مزید بحث کے بعد خلاصہ تحریر فرماتے ہیں:
بل الظاہر أن التضعیف المذکور مختص بالجماعۃ في المسجد۔ (فتح الباري: ۲/۹۲)
بلکہ ظاہر بات یہ ہے کہ چند درچند ثواب کی زیادتی جو مذکور ہوئی، وہ مسجد کی باجماعت نماز کے ساتھ مختص ہے۔