یہ پنج وقتہ جماعتوں کا حال ہے جو محلہ میں اشاعتِ دین، انضباطِ اتحاد اور بے شمار دینی
وسیاسی منافع کا باعث ہوتی ہیں، باقی شہروں اور بڑی آبادی کے مختلف محلوں میں اشاعتِ دین وغیرہ کا مسئلہ، تو اس کے لیے شریعت نے جامع مسجدوں کا نظام قائم کیا ہے، اور اس کو ٹھوس بنیاد پر قائم کردیا ہے، کیوں کہ ہر دن تمام محلوں کا یک جا ہونا دقت وپریشانی اور حرج سے خالی نہ تھا، اور ہفتہ بھر میں ایک ہی بار اس طرح کا اجتماع اپنی مخصوص خوبیوں کی بنا پر مناسب بھی تھا۔
ہر جگہ جمعہ کی ایک ہی جماعت عہدِ نبوی اور عہدِ صحابہ میں:
چوں کہ جامع مسجدوں سے گرانقدر فوائد متعلق ہیں، اس لیے شریعت نے اس مسئلے کو واضح کر دیا ہے کہ ایک شہر یا قصبہ میں ایک ہی مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھی جانی چاہیے۔ آں حضرت ﷺ اور خلفائے راشدین1 کے زمانے میں یہی رائج تھا، ایک شہر کی متعدد مسجدوں میں جمعہ کی نماز نہیں پڑھی جاتی تھی۔ صاحبِ ’’مبسوط‘‘ جو خود بھی عدمِ جو ازِ تعددِ جمعہ کی طرف مائل ہیں، لکھتے ہیں:
أن في زمن رسول اللّٰہ ﷺ والخلفاء بعدہ فتحت الأمصار، ولم یتخذ أحد منہم في کل مصر أکثر من مسجد واحد لإقامۃ الجمعۃ، ولو جاز إقامتہا في موضعینِ جاز في أکثر ذلک، فیؤدي إلی القول بأن یصلي أہل کل مسجد في مسجدہم، وأحد لایقول بذلک۔ وفي تجویز إقامۃ الجمعۃ في موضعین في مصر واحد تقلیل الجماعۃ، وإقامۃ الجمعۃ من أعلام الدین، فلا یجوز القول بما یؤدي إلی تقلیلہا۔ (مبسوط سرخسي: باب الجمعۃ: ۱/۱۲۱)
بلاشبہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے خلفا کے زمانے میں بہت سے شہر فتح ہوئے، مگر ان میں سے کسی نے بھی ایک شہر میں ایک جامع مسجد سے زیادہ نہ بنائی، اگر اقامتِ جمعہ ایک شہر میں دو جگہ جائز ہوتا تو دو سے زیادہ جگہوں میں بھی جائز ہوگا، اور بالآخر یہ بات یہاں تک پہنچے گی کہ ہر ہر
مسجد والے اپنی ہی مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کریں، حالاں کہ کوئی بھی اس کاقائل نہیں ہے۔ اور ایک شہر میں دو مسجدوں کے اندر نمازِ جمعہ جائز قرار دینا جماعت کی قلت کا باعث ہوگا، حالاں کہ اقامتِ جمعہ دین کی نشانیوں سے ہے، لہٰذا ایسی بات کا قائل ہونا جائز نہ ہوگا جو اس کی تقلیلِ جماعت کا باعث ہو۔
انھوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ تعددِ جمعہ کی شکل میں اقامتِ جمعہ کا مقصدِ اصلی فوت ہو جائے گا، کیوں