{وَّاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰہِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا}1
مسجدیں اللہ ہی کی ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو۔
بلاشبہ یہ نسبت ساری دوسری نسبتوں سے بڑھ کر ہے، اور اس نسبت سے جو شرافت اور بزرگی حاصل ہوتی ہے، وہ اور شرافتوں سے بالاتر، پھر تخصیص کی مزید عزت اس کی وقعت اور اہمیت کا زبردست مظاہرہ ہے۔
مساجد کی خدمت:
کسی کو جب اپنا بنالیا جاتا ہے تو پھر یہ گوارا نہیں ہوتا کہ اس کو اس کے حوالے کردیا جائے جو اس کا مخالف ہو، کیوں کہ جب اس کو مالک سے عقیدت نہیں، دل میں اس کی خشیت ومحبت نہیں اور وہ اس کے احکام پر اطاعت کا سر رکھنے والا نہیں ہے، تو یقینی طور پر وہ اپنی مفوّضہ خدمت کو بحسن وخوبی ادا کرنے میں کوتاہی سے کام لے گا۔ پس یہ بات ظاہر ہوگئی کہ مشرکوں اور نافرمانوں کو جب مسجد اور اس کے مالک سے قلبی لگاؤ نہیں، تو اس مسجد کی خدمت رب العزت ان کے ہاتھ میں کیوں کر چھوڑے گا۔ ارشاد فرمایا:
{مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰہِ شٰہِدِیْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ بِالْکُفْرِط}2
مشرکوں کی لیاقت نہیں ہے کہ اللہ کی مسجدیں آباد کریں، جس حالت میں کہ وہ اپنے اُوپر کفر وانکار کا اقرار کر رہے ہیں۔
یہ دربارِ الٰہی کے احترام کا اظہار ہے، تاکہ ان گھروں کی قدر ومنزلت دلوں پر نقش ہو جائے اور یہ معلوم ہو جائے کہ یہ گھر اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں، اُن کی وہی خدمت کریں جو خدا کے دوست ہوں، جن کے دل میں اس کی خشیت ومحبت گھر کرچکی ہو، تاکہ وہ ان کے بنانے میں عقیدت ومحبت کی پونجی صرف کرسکیں، اور یہ سمجھ کر خدمت کے لیے کمر باندھیں کہ یہ دنیا کے پروردگار کا گھر ہے اور اس کے جاہ وجلال اور عرض ونیاز کا دربار۔
حقِ خدمت مومنِ کامل کو: