میں ہیں، اور جہاں نبی کریم ﷺ سے رخصت مذکور نہیں ہے، اس کی توجیہہ یہ بیان کرتے ہیں کہ آپ کا مقصد وہاں یہ تھا کہ رخصت کے بجائے عزیمت پر عمل افضل اور خوب تر ہے، اور دوسرے یہ کہ جماعت کی مخصوص فضیلت مسجد ہی سے وابستہ ہے اور ان فیوض وبرکات سے پورے طور پر وہی متمتع ہوسکتا ہے جو عزیمت پر عمل پیرا ہو۔3
مگر صاحب ’’التحریر المختار‘‘ نے سندی کے حوالے سے جو جواب نقل کیا ہے وہ نظمِ جماعت کے زیادہ مطابق ہے۔ فرماتے ہیں: عتبان بن مالک ؓ نے آں حضرت ﷺ سے یہ درخواست کی تھی کہ اپنے گھر کی ایک جگہ میں نماز پڑھیں جس کو انھوں نے مسجد بنایا تھا، ہوسکتا ہے کہ مسجد بنانے کے بعد وہ اپنے قبیلہ کی اس میں امامت کرتے ہوں۔ پس ان کو تارکِ جماعت نہیں کہا جائے گا، اور نہ یہ کہا جائے گا کہ انھوں نے مسجد کی حاضری ترک کردی، بلکہ یہ بات ہوئی کہ انھوں نے اپنی معذوری کی وجہ سے ابعد مسجد (دور والی مسجد) کو چھوڑ دیا اور قریب کی مسجد کو اختیار کیا اور اس میں کوئی کراہت نہیں ہے، جس طرح محلوں میں مسجد بنالی جاتی ہے اور جامع مسجد چھوڑ دی جاتی ہے۔ اور یہ معلوم ہے کہ انصار کے ہر قبیلہ کے لیے مسجدیں تھیں، چناں چہ جب وہ لوگ کسی وجہ سے آپ کے ساتھ نماز میں نہ حاضر ہو پاتے، تو اسی میں نماز پڑھتے تھے۔1
خود رحمتِ دو عالم ﷺ کے مرض الموت کا واقعہ بصیرت کا مرقّع ہے، آپ ﷺ بیماری کی شدت سے بالکل نڈھال ہوگئے ہیں، لاغری اور ضعف کا پورا اثر ہے اور غشی پر غشی طاری ہو رہی ہے، مگر جب بھی معمولی افاقہ محسوس فرماتے ہیں تو رہ رہ کر یہی سوال کرتے ہیں کہ ’’جماعت ہوگئی؟‘‘ کہا جاتا ہے: نہیں یا رسول اللہ۔ یہ سن کر جماعت کی نماز کے لیے اٹھنا چاہتے ہیں کہ پھر غشی کا دورہ پڑ جاتا ہے، یوں ہی چار مرتبہ آپ نے دریافت فرمایا: ’’أصلی الناس؟‘‘ (کیا لوگ نماز پڑھ چکے؟) اور ہر مرتبہ غشی کا حملہ ہوتا رہا، تب جاکر آپ نے صدیقِ اکبر ؓ کو اطلاع کرائی کہ آپ امامت کریں۔2
اسی مرض الموت میں ایسا بھی ہوا کہ صدیقِ اکبر ؓ نماز پڑھا رہے ہیں، آپ نے کچھ افاقہ محسوس فرمایا اور دو شخصوں کے سہارے اس طرح مسجد میں جماعت کے لیے تشریف لائے کہ دونوں بازوئے مبارک دو شخصوں کے کندھوں پر ہیں اور پائے مبارک اپنی ناطاقتی کی وجہ سے زمین پر گھسٹتے ہوئے آرہے ہیں۔ 3
یہ تھی اہمیت مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کی، اس ذاتِ مقدّس کی نگاہ میں جو معصوم تھی اور اللہ تعالیٰ کے بعد اسی کا درجہ ہے۔ صرف قول ہی سے نہیں، بلکہ عمل سے اپنی امت کو تعلیم فرماگئے اور بتا گئے کہ ایک گھر میں ایک مقصد کے لیے سب کا مجتمع ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے پیشانی رگڑنا کس قدر ضروری ہے۔ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم۔