مسجدِ حرام، مسجدِ نبوی اور اقصیٰ:
بلاشبہ مسجدِ حرام، مسجدِ نبوی اور مسجد اقصیٰ اپنی تاریخی اور دینی اہمیت کے لحاظ سے ممتاز ہیں، اسلام میں جو مرتبہ اور بزرگی ان مسجدوں کو حاصل ہے وہ کسی اور کو میسر نہیں، ان کی عظمت کا یہ حال ہے کہ تقرب الی اللہ (ثواب) کی نیت سے ان مسجدوں کے لیے سفر کرنا جائز، بلکہ مطلوب ہے، اوروں کے لیے اجازت نہیں ہے۔
آں حضرت ﷺ فرماتے ہیں:
لَا تَشُّدُّوا الرِّحَالَ إِلَّا إِلَی ثلاثۃ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْمَسْجِدِ اَلأَقْصَی وَمَسْجِدِيْ ہَذَا۔ (البخاري ومسلم)
’’کجا وہ نہ باندھو مگر تین مسجدوں کے لیے: مسجدِ حرام، مسجدِ اقصی اور میری یہ مسجد‘‘ (نبوی)۔
یہ حدیث بہت واضح ہے اور ان تین مسجدوں کی عظمت کو نمایاں کر رہی ہے۔ بقیہ دوسری مساجد کی طرف ثواب کی نیت سے سفر کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ اسی سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دوسرے مقاماتِ متبرکہ کی طرف بھی ثواب کی نیت سے سفر جائز نہیں ہے۔ یوں جانا یا کسی اور ضرورت سے جانے میں البتہ کوئی مضائقہ نہیں ہے، جیسے حصولِ علم، تجارت، تفریح وغیرہ، بلکہ کبھی ایسی ضرورت بھی آپڑتی ہے کہ سفر مطلوب ہو جاتا ہے، مثلاً کسی پر کوئی حق واجب الادا ہو، علومِ قرآن وحدیث مقصود ہوں۔3
یہ دھوکہ ہرگز نہ ہو کہ کوئی سفر کرے تو مقاماتِ متبرکہ دیکھنے نہ جائے، یا مشہور ومعروف مسجدیں نہ دیکھی جائیں۔ اس میں اس کو اختیار ہے۔ ہاں! یہ نیت ہرگز نہ ہو کہ دہلی کی جامع مسجد کی زیارت سے نصف حج کا ثواب ملے گا اور اجمیر کی حاضری سے ایک حج کا ثواب حاصل ہوگا۔
حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ؒ نے اس کی ممانعت کی حکمت کی طرف اشارہ فرمایا ہے:
اہلِ جاہلیت چند جگہوں کو اپنے خیال میں باعظمت اور متبرک سمجھ کر ان کا قصد کرتے اور ان کی زیارت کو جاتے تھے، حالاں کہ اس میں تحریف وفساد کھلا ہوا تھا، اسی وجہ سے آں حضرت ﷺ نے فساد کا دروازہ ہی بند فرما دیا، تاکہ شعارِ دین دوسرے شعار سے جو دین نہیں ہیں خلط ملط نہ ہو، اور آگے چل کر غیر اللہ کی عبادت کا ذریعہ نہ بن سکے۔1