بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الحمد للّٰہ وکفی، وسلام علی عبادہ الذین اصطفی۔
اما بعد، اشتیاقِ علومِ دینیہ کا جو جذبہ سینے میں موجزن تھا اور جس کی پرورش اخی المکرم حضرت الاستاذ مولانا عبدالرحمن صاحب مدظلہٗ نے اپنی نگرانی میں فرمائی تھی، اس نے گھر سے نکلنے پر مجبور کیا۔ چناں چہ تعلیم کے اخیر تین سال مدرسہ مفتاح العلوم مئو (ضلع اعظم گڑھ) میں حضرت الاستاذ مولانا حبیب الرحمن صاحب مدظلہٗ اعظمی کی زیرِ تربیت گزارے۔
درسیات سے فراغت کے بعد استاد موصوف کی شفقت ومحبت نے مدرسہ موصوفہ میں بلاکر ایک سال مزید تکمیل کا موقع عطا کیا، جس سے دینیات سے مناسبت پیدا ہوگئی۔ دوسرے سال ادبِ عربی اور دینیات کی تکمیل کی غرض سے سیدی علامہ سید سلیمان صاحب ندوی مدظلہٗ کی ہدایت پر دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو حاضر ہوا تھا، مگر صحت کی نامساعدت اور گھر کے حالات نے دوماہ سے زیادہ حصولِ علم کا موقع نہ دیا، نا چار اساتذۂ کرام کے مشورے اور علامہ محترم کی اجازت سے ملازمت کرلی۔
اس گراں بار ذمہ داری کے ساتھ شوق ہے کہ کچھ لکھتا پڑھتا رہوں۔ محترم مولانا محمد انیس صاحب نگرامی کا مشورہ ہے کہ ’’احکامِ مساجد‘‘ جمع کروں، مگر حال یہ ہے کہ چند گنی چنی کتابیں ہیں اور بس۔
رب العزت! اس دینی اور علمی کوشش میں کامیاب فرماکر حوصلہ بلند ہو، سامانِ وافر فرما دے کہ ہمت وجرأت دوچند ہو۔ ربِ قدیر! ایک بے مایہ انسان کے علم ومحنت میں برکت عطا فرما، ایک اپاہج قلم میں وہ طاقت بخش دے کہ تیزگامی سے چل سکے، ایک اندھے کی بصارت وبصیرت میں وہ نور پیدا کردے کہ دنیائے علم اس کی نگاہوں میں روشن ہو جائے، اور پروردگارِ عالم! جو بھی ہو اخلاص وللہیت کے ساتھ ہو، آمین، یا رب العالمین۔
عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ، وَمَا تَوْفِیْقِیْٓ اِلَّا بِاللّٰہِ ہُوَ المَوْلٰی وَنِعْمَ الوَکِیْلُ۔
لاشیء محمد ظفیر الدین غفرلہٗ
پورہ نوڈیہاوی
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
نقاب کُشائی
(از حضرت مولانا سید مناظر احسن صاحب گیلانی)
’’نظامِ مساجد‘‘ نامی کتاب پڑھنے والوں کی خدمت میں صرف پڑھنے کے لیے نہیں، بلکہ پڑھ کر کچھ کرنے کے لیے پیش ہو رہی ہے۔ اس زمانے میں ہر قوم اس عارضے میں مبتلا ہے کہ اپنے لیے کچھ کرے، اپنے مستقبل کو سنوارے۔ مسلمانوں کو بھی اس وبا کے عارضے سے حصہ ملا ہے۔ ’’عارضہ‘‘ خصوصاً مسلمانوں کے لیے اس لیے قرار دے رہا ہوں کہ سوچنے کی ضرورت تو اُن کو تھی، یا ہے، جن کے پاس کچھ نہ تھا، مگر محمد رسول اللہ ﷺ جس امت کو چھوڑ کر دنیا سے روپوش ہوئے ہیں، اس کے پاس تو بحمد اللہ سب کچھ ہے، ضرورت اس امت کے لیے اگر کسی چیز کی رہ گئی ہے تو صرف اس بات کی، کہ جو کچھ اس کے پاس موجود ہے اس سے استفادہ کی راہیں کھولے۔
بلا مبالغہ عرض کر رہا ہوں کہ لاکھوں نہیں کروڑوں، بلکہ اربوں کا لفظ استعمال کیا جائے تو شاید واقعے سے بعید نہ ہوگا، روپے کی اتنی مقدار مسلمانوں سے حاصل کرکے کسی کام میں لگانا نہیں ہے، بلکہ روپے کی یہ مقدار مسلمان اپنی جیبوں سے نکال چکے ہیں، خرچ کر چکے ہیں، اور اس خرچ کے نتائج بھی ہمارے سامنے ہیں۔
آخر میں پوچھتا ہوں: کون گن سکتا ہے ان مسجدوں کو جو ایشیا وافریقہ اور یورپ کے بھی بعض دور دراز حصوں میں پھیلی ہوئی ہیں؟ کیسی مسجدیں؟ جن میں دلی کی جامع مسجد بھی ہے اور احمد بن طولون کا جامع بھی، جامع اموی دمشق بھی اور