نظمِ جماعت فقہا ئے اُمت کی نظر میں:
اصولیینِ فقہ اپنی کتابوں میں جماعت کی نماز کو ’’ادائے کامل‘‘ اور منفرد کی نماز کو ’’ادائے قاصر‘‘ سے تعبیر فرماتے ہیں۔ ’’کامل‘‘ سے ان کی مراد یہ ہے کہ جس طریقے پر نماز مشروع ہوئی ہو اسی طریقے سے ادا کی جائے۔ اور ’’قاصر‘‘ وہ ہے جو طریقۂ مشروعہ کے خلاف طریقے پر ادا کی جائے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ حضرت جبریل امین نے آں حضرت ﷺ کو پہلے پہل عملی تعلیم باجماعت دی تھی، جیسا کہ ’’ترمذی‘‘ اور حدیث کی دوسری کتابوں میں یہ واقعہ مصرح ہے۔4
فقہائے امت میں محققین جماعت کی نماز کو واجب کہتے ہیں، چناں چہ ابن الہمام نے ’’بدائع‘‘ سے وجوب کا قول اپنی تائید کے ساتھ نقل کیا ہے۔ اور جن لوگوں نے اس کو لفظِ ’’سنت‘‘ سے تعبیر کیا ہے اس کی وجہ بیان کی ہے، تحریر فرماتے ہیں:
یجب علی العقلاء البالغین الأحرار القادرین علی الجماعۃ من غیر حرج، وإذا فاتتہ لا یجب علیہ الطلب في المساجد بلا خلاف بین أصحابنا، بل إن أتی مسجدًا آخر للجماعۃ فحسن، وإن صلی في مسجد حیِّہ منفردًا فحسن۔ (فتح التقدیر: ۱/۱۳۹)
جو عاقل، بالغ، آزاد اور بغیر شرعی عذر جماعت کی نماز پر قادر ہو، اس پر جماعت واجب ہے۔ اور اگر سعی کے باوجود کسی کی جماعت چھوٹ جائے تو باتفاق ہمارے یہاں ایسے شخص پر واجب نہیں ہے کہ وہ مسجدوں میں جماعت تلاش کرتا پھرے، ہاں! اگر ایسا کرے تو مستحسن ضرور ہے۔ اور اگر اپنے محلے کی مسجد ہی میں اکیلا نماز ادا کرے تو ایسی حالت میں یہ بھی درست ہے۔
اس سے بھی جماعت کی حیثیت کا پتہ چلتا ہے۔ بلاشبہ اگر اپنی مسجد میں غیر ارادی طور پر جماعت نہ مل سکے تو دوسری مسجدوں میں جماعت کی تلاش واجب نہیں ہے، مگر مستحسن ضرور ہے۔ یوں تو اس کو اختیار ہے کہ اپنی ہی مسجد میں تنہا نماز پڑھ لے یا گھر میں، یا مسجد سے باہر کسی اور جگہ میں اپنے گھر والوں کو جمع کر کے جماعت کے ثواب کے حصول کی کوشش کرے۔ چناں چہ ابن الہمام لکھتے ہیں:
وکذلک في ’’القدوري‘‘: یجمع بأہلہ ویصلي بہم، یعني ینال ثواب الجماعۃ۔ وقال شمس الأئمۃ: الأولی في زماننا تتبعہا۔ (فتح القدیر: ۱/۱۴۹)
اسی طرح ’’قدوری‘‘ میں ہے کہ اپنے گھر والوں کو جمع کرکے جماعت سے پڑھ لیا تو بھی جماعت کا ثواب مل جائے گا، مگر شمس الائمہ فرماتے ہیں کہ ہمارے زمانے میں جماعت تلاش کرنا اولیٰ ہے۔
جماعت جب واجب ہے تو پھر فقہا اور محدثین نے اسے ’’سنت‘‘ کے لفظ سے کیوں تعبیر کیا؟ اس کے متعلق ابن الہمام لکھتے ہیں: