سن کر سکوت فرمالیا اور کہا: ’’میرا یہ سکوت روح الامین کی آمد تک ہے‘‘۔ آپ ابھی اسی حال میں تھے کہ حضرت جبریل امین ؑ تشریف لے آئے، حضور فرماتے ہیں کہ ’’میں نے وہ سوال ان پر پیش کردیا، جبریل امین ؑ فرمانے لگے: میرا علم اس سلسلے میں آپ سے زیادہ نہیں ہے، ہاں! پرور دگارِ عالم سے معلوم کر کے بتا سکتا ہوں، پھر تھوڑی دیر میں حضرت جبریل ؑ آکر کہنے لگے: اے اللہ کے پیارے رسول! دربارِ ایزدی میں حاضر ہوا، اور اس قدر قریب ہوا جتنی قربت کبھی نہیں ہوئی تھی۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ’’وہ نزدیکی کیسی تھی‘‘؟ روح الامین نے جواب دیا: میرے اور رب العزت کے درمیان ستر ہزار نوری پردے حائل تھے۔ پھر آں حضرت ﷺ کے پہلے سوال کے جواب میں فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا کی بدترین جگہ بازار ہیں اور اس کی بہترین جگہ مساجد۔2
مسجد کی برکت:
حضرت معاذ بن جبل ؓ ایک جلیل القدر صحابی ہیں، ان کا بیان ہے کہ ایک دن خلافِ معمول صبح کی نماز میں تاخیر ہوگئی، معلوم ہوتا تھا کہ آفتاب نکل آئے گا، اتنے میں آں حضرت ﷺ تشریف لائے، اقامت کہی گئی اور آپ نے نماز پڑھائی، سلام پھیرتے ہی آواز دی: ’’تم لوگ اپنی اپنی جگہ ٹھہرجاؤ‘‘۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر آں حضرت ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’تاخیر کی وجہ بیان کرتا ہوں، بات یہ ہوئی کہ میں رات میں نیند سے بیدار ہوا، جو کچھ نماز میرے لیے مقدر تھی وضو کرکے ادا کی، پھر حالتِ نماز ہی میں غنودگی کی کیفیت طاری ہوگئی اور بوجھل سا ہوگیا کہ معًا اپنے کو پرور دگارِ عالم کے پاس پایا جو اپنی احسن صفت کے ساتھ جلوہ گر تھے۔ ارشادِ باری ہوا: اے محمد۔ میں نے کہا: ’’لبیک رب‘‘۔ حکم ہوا: بتاؤ! ملائے اعلیٰ کے فرشتے کس باب میں جھگڑتے ہیں اس سوال کو تین بار فرمایا، میں نے ہر بار یہی کہا: ’’لا أدري‘‘ (میں نہیں جانتا)۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے اپنے دستِ قدرت مجھ پر ڈالا تاآں کہ اس کا نمایاں اثر میں نے محسوس کیا، اس کے بعد ہر چیز مجھ پر منکشف ہوگئی، اور میں نے ان کو خوب اچھی طرح سے جان لیا‘‘۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد۔ آپ کہتے ہیں کہ ’’میں نے لبیک کہا‘‘۔ حکم ہوا: ملائے اعلیٰ کس بات میں الجھ رہے ہیں؟ اب میں نے کہا: ’’کفارات میں‘‘ (یعنی گناہوں کا کفارہ کون عمل بنتا ہے)۔ ارشادِ باری ہوا: وہ کیا ہیں؟ میں نے جواب میں کہا:
۱۔ کھانا کھلانا (مسکینوں محتاجوں کو)
۲۔ نرمی سے بات چیت کرنا (زیر دستوں اور ٹوٹے ہوئے دل والوں سے)