دے گا، پھر البتہ وہ غافلوں میں ہو جائیں گے‘‘۔
ایک دوسری حدیث میں ہے جو ’’ابوداؤد‘‘ میں ہے کہ ’’جو شخص سستی کی وجہ سے تین جمعہ ترک کردیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر کردیتا ہے‘‘۔ ’’مسلم شریف‘‘ کی ایک حدیث میں آیا کہ ’’جو لوگ جمعہ کی نماز میں نہیں آتے جی چاہتا ہے ان کو پھونک ڈالوں‘‘۔11 (مسلم باب صلاۃ الجماعۃ إلخ: ۱/۲۳۲) علامہ ابن القیم نے انھی حدیثوں کے پیشِ نظر لکھا ہے کہ جمعہ کی نماز فرائضِ اسلام میں مؤکد تر ہے اور اس کا اجتماع عظیم الشان اجتماع ہوتا ہے، اتنا عظیم الشان کہ عرفہ کے بعد فرض اجتماع یہ ہی ہے۔ جو اس کی شرکت محض اپنی سستی ودنیا طلبی کی وجہ سے ترک کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کے دل پر غفلت کی مہر لگا دیں گے، اس کا رتبہ اعلیٰ ہے اور اتنا اعلیٰ کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی قربت اور سب سے اول اس کا دیدار ان لوگوں کو نصیب ہوگا، جو جمعہ کے دن امام کے زیادہ قریب ہوتے ہیں، اور سویرے جامع مسجد حاضر ہوتے ہیں‘‘۔1
یہ سب تاکید اسی لیے ہے کہ جامع مسجدوں کا قدرتی نظام ہمیشہ مضبوط بنیاد پر قائم رہے، اور ان کے اجتماعوں سے جو بھی دینی ودنیاوی فائدے ہو سکتے ہیں، فرزندانِ توحید اس سے پورے طور پر مستفید ہوتے رہیں، اور غفلت، کاہلی اور بے رغبتی وغیرہ ان میں اثر پذیر نہ ہوسکے۔
ایک عام فائدہ:
شروع میں عرض کر آیا ہوں کہ جمعہ کے اجتماع میں شہر کے ہر طبقے کے لوگ شریک ہوتے ہیں، علما وصوفیا، رؤسا، تجار، غربا، فقرا، مختصر یہ کہ ہر شعبۂ زندگی کے تقریباً ماہرین ہوتے ہیں، ہر ایک دوسرے کو عبرت وبصیرت کی نظر سے دیکھیں گے، کسی کو تعلیم اور علوم وفنون کی اشاعت کی فکر ہوگی، کسی کو تزکیۂ قلوب اور روحانی اصلاح کی ضرورت محسوس ہوگی، کوئی مسلمانوں کی اقتصادی اور معاشرتی زندگی کا جائزہ لے گا، کوئی پست خیال افراد کی ترقی کی اسکیم بنائے گا، اور کچھ لوگوں میں کسبِ حلال کی امنگ پیدا ہوگی، گویا یہ سارے طبقے مل کر ہر ہفتہ اور کچھ نہیں تو مسلمانوں کی اصلاح کا احساس تو ضرور ہی اپنے اندر پیدا کردیں گے، اور ہر قلب پر ایک چوٹ سی لگے گی۔