راوی نے اس روایت میں یہ بھی بیان کردیا ہے کہ مقامِ روحا مدینہ سے چھتیس میل کی دوری پر واقع ہے۔ ایک دوسری روایت میں مذکور ہے کہ اذان سنتے ہی وہ پریشان اور گھبرا کر چلتا بنتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اذان نہ سن سکے، اذان جب ختم ہوتی ہے تو پھر پلٹ کر آتا ہے، تکبیر کے وقت پھر چلتا بنتا ہے، اس کے بعد آکر وسوسہ پیدا کرتا ہے، اور بھولی ہوئی بات یاد کراتا ہے، تاآں کہ تعدادِ رکعت میں نمازی احتمال میں پڑجاتا ہے کہ کتنی رکعت ہوئیں۔1
علمی بحث اور اس کا جواب:
اس حدیث کو نقل کر کے شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ نے ایک اعتراض کیا ہے اور خود ہی جواب دیا ہے۔ اعتراض کا ماحصل یہ ہے کہ شیطان اذان سے تو بھاگتا ہے، مگر کیا وجہ
ہے تلاوتِ قرآن اور نماز سے نہیں بھاگتا؟ حالاں کہ ان دونوں کا درجہ نسبتاً بڑھا ہوا ہے۔ جواب یہ دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کلماتِ اذان میں ایک ایسی عظمت اور ہیبت رکھی ہے جو اس کو خوف زدہ اور مرعوب کردیتی ہے، پھر اذان نماز سے کوئی علیحدہ چیز نہیں، بلکہ نماز کا مقدمہ ہے، ہاں! اتنی بات البتہ ہے کہ اس میں عجب وریا نہیں، بخلاف نماز وتلاوتِ قرآن کے، کہ یہ دونوں اپنی غایتِ فضیلت کی وجہ سے آدمی کو عجب وریا میں ڈال دیتی ہیں، جس سے شیطان کو وسوسے کا راستہ مل جاتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اذان میں خاصیت رکھی گئی ہے۔1
حافظ ابنِ حجر ؒ نے بھی اس سلسلے میں مختلف جواب نقل کیے ہیں، چناں چہ یہ بھی نقل کیا ہے کہ شیطان اس لیے اذان سے بھاگتا ہے کہ قیامت کے دن مؤذن کے حق میں گواہی نہ دینی پڑے، کیوں کہ جو بھی مؤذن کی آواز سنتا ہے جن ہو یا آدمی، مگر اس کو گواہی دینی پڑتی ہے۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اذان سے متنفر ہو کر بھاگتا ہے۔2
مثال سے یوں سمجھئے کہ ایک مجرم جتنا تھانے دار یا سپاہیوں سے ڈرتا ہے، منصف اور جج سے نہیں ڈرتا۔ جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ چور یا جو بھی مجرم ہوتا ہے وہ یہ یقین رکھتا ہے کہ یہاں ذرا بات بگڑی، پٹائی شروع ہو جائے گی، مگر کمرۂ عدالت میں یہ بات نہیں ہے، وہ قانون کے تحت میں فیصلہ کرے گا اور پھر اس پر عمل ہوگا۔ حالاں کہ سب کو معلوم ہے کہ اپنے عہدہ میں منصف اور جج تھانے دار اور سپاہی سے بہت اونچے عہدہ کا مالک ہے۔